ام المؤمنین حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا

ہو دوسری عورتوں میں سے کسی عورت کی مانند‘‘۔ (سورۃ الاحزاب۔۳۴)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ’’امہات المؤمنین‘‘ ہیں، جن کا ادب بجالانا اور تعظیم و توقیر حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ضمن میں ہے اور یہ فضیلت و برکت ہر اس شخص کو حاصل ہے، جو نسب، نسبت، صحبت اور قربت کے ساتھ منسوب ہے۔ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ روئے زمین کی تمام عورتوں سے بالاتر ہے اور وہ شان علوی کا خاص مظہر ہیں۔ ان کے منازل و مراتب جداگانہ ہیں۔ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی سب سے نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ان کو حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا اور ان کی شان پاک میں کئی آیات نازل ہوئیں۔ ان کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ ان کے حجرے نزول وحی الہٰی کا سرچشمہ بنے، جب کہ یہ بات واضح ہے کہ مکان کی عزت مکین سے ہوتی ہے۔
حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل، اخلاق و کردار کی بلندی اور ایثار و محبت کے عظیم جوہر سے نوازا اور آپ کا یہ کردار تمام مسلمانوں بالخصوص خواتین اسلام کے لئے مشعل راہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ضرورت کی تکمیل کے لئے ایک مرتبہ راہ سے گزر رہی تھیں۔ اسی اثناء حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو دیکھا اور فرمایا ’’ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے‘‘۔ حضرت سودہ کو یہ جملہ شاق گزرا اور آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شکایت کی۔ اس واقعہ کے بعد آیت حجاب نازل ہوئی۔ واضح رہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منشاء یہ تھا کہ عورتوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئے، اس بات کا اظہار آپ نے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی کیا۔
ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام زمعہ اور آپ کی والدہ کا نام شموس بنت عمرو ہے۔ آپ کا تعلق قریش کے نامور قبیلہ عامر بن لوی سے تھا، یعنی لوی پر جاکر آپ کا نسب مبارک حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ (اسد الغاب)
 (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲، ص۴۶۷)
ہجرت حبشہ
     سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابتدا ہی میں مکہ مکرمہ میں ایمان لائیں ان کے شوہر حضرت سکران بن عمروبن عبدالشمس بھی ان کے ساتھ اسلام لائے،جن سے عبدالرحمن نامی لڑکا پیدا ہوا۔ سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت سکران رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ کی۔ ان کے شوہر مکہ مکرمہ بروایت دیگر حبشہ میں فوت ہوئے۔
 (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲، ص۴۶۷)
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خواب
    سیدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجب مکہ مکرمہ واپس تشریف لائيں توخواب میں دیکھاکہ رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور قدم مبارک ان کی گردن پر رکھا۔ اپنا یہ خواب حضرت سکران رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر خواب بعینہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تم بیان کررہی ہو تو میں بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا اور پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تمہیں چاہیں گے۔ پھر کچھ دنوں بعد حضرت سکران رضی اللہ تعالیٰ عنہ وصال فرماگئے۔
 (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲، ص۴۶۷)
نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
    حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے انتقال سے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو نہایت پریشانی ہوئی ،کیونکہ گھر بار ،بال بچوں کا انتظام ان ہی سے متعلق تھا۔ یہ دیکھ کر خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کیا:یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ نکاح کر لیجئے ،فرمایا: کس سے؟ خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے حضرت عائشہ وسودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکا نام لیا ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دونوں سے خواستگاری کی اجازت دیدی۔ خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس گئیں اور کہا کہ خدا عزوجل نے تم پر کیسی خیروبرکت نازل فرمائی ہے ۔سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے پوچھاکہ وہ کیا ہے! خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھے آپ کے پاس بغرض خواستگاری بھیجا ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے منظور ہے مگر میرے باپ سے بھی دریافت کرلو۔ چنانچہ وہ ان کے والد کے پاس گئیں اور جاہلیت کے طریق پر سلام کیا یعنی انعم صباحاکہا انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا نام بتایا پھر نکاح کا پیغام سنایا انہوں نے کہا کہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) شریف کفو ہیں مگر سودہ سے بھی دریافت کرلو۔خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ وہ راضی ہيں۔یہ سن کر زمعہ نے کہا کہ نکاح کے ليے آجائیں۔
 (شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثالث،سودۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنھا ،ج۴،ص۳۷۹)
    بعض روایتوں کے مطابق حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نکاح میں آئیں
ْ
جس وقت حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حبیب پاک علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوا، اس وقت آپ کی عمر مبارک پچاس سال تھی (طبقات، اسد الغابہ) آپ کی سخاوت و فیاضی مشہور تھی۔ آپ جذبۂ ایثار سے سرشار تھیں، خوش اخلاقی و خوش مزاجی آپ کی طبیعت کے اہم پہلو رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ درہموں سے بھری تھیلی آپ کی خدمت میں پیش کی، جس کو آپ نے اسی وقت تقسیم کردیا۔ (اصابہ، سیرت الصحابیات)
ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طبیعت میں حس لطیف نمایاں رہا۔ ایک مرتبہ آپ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! کل رات میں نے آپ کے پیچھے نفل نماز پڑھی۔ آپﷺ دیر تک رکوع میں رہے تو مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ ناک سے نکسیر پھوٹ نکلے گی اور کہیں خون کے قطرے نیچے گرنا نہ شروع ہو جائیں، لہذا میں نے اپنی ناک مضبوطی سے پکڑلی‘‘۔ آپﷺ یہ بات سن کر بے ساختہ ہنس پڑے۔ (ازواج مطہرات، طبقات)
حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پانچ روایات کتب متداولہ میں درج ہیں، جن میں سے ایک بخاری شریف میں بھی مذکور ہے۔ آپ کا وصال ۷۴ سال کی عمر مبارک میں مدینہ منورہ میں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ہوا۔ مزار اقدس جنت البقیع میں ہے۔
Exit mobile version