اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ

 آپ کا نام (حضرت) خدیجہؓ ہے۔ نبی کریم کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنتِ زاہدہ ہے۔ آپ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ مکہ مکرّمہ میں سکونت اِختیار کی اور بنو عبدالدار کے حلیف بنے۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کی والدہ کا نکاح عامر بن لوی کے خاندان میں ہوا۔ اُن کے بطن سے حضرت سیّدہ خدیجہؓ پیدا ہوئیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓ جب جوان ہوئیں تو اُن کے والدین نے اُن کی شادی ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے کی۔ اِن سے اُن کے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام ہند تھا اور دوسرے کانام حارث۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کے بیٹے ہند نے اوّل اِسلام قبول کیا۔ نہایت فصیح و بلیغ تھے۔ اَمیر المو¿منین حضرت سیّدنا علیؓ کے ساتھ جنگِ جمل میں شریک رہے اور شہید ہوئے۔

حضرت سیّدہ خدیجہؓ ایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیں۔ مکارمِ اَخلاق کا پیکرِ جمیل تھیں۔ رحمدلی ‘ غریب پروری اور سخاوت آپ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں ۔

حضرت ابنِ اسحاقؒ کہتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مالدار خواتین میں ہوتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورِ مضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں۔ جتنا سامانِ تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اُتنا اکیلے حضرت سیّدہ خدیجہؓ کا ہوتا۔ آپ اپنے نمائندوں کو سامانِ تجارت دے کر روانہ فرماتیں‘ جو آپ کی طرف سے کاروبار کرتے اُ س کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے اُن کی اُجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو اُنہیں دی جاتی‘ نفع و نقصان سے اُنہیں کوئی سروکار نہ ہوتا یا نفع میں اُن کا کوئی حصّہ‘ نصف‘ تہائی یا چوتھائی مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے۔ بصورتِ نقصان ساری ذمہ داری حضرت سیّدہ خدیجہؓ پر ہوتی۔

حضرت ابن اِسحاقؒ سے مروی ہے کہ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کو رسولِ کریم کی راست گفتاری‘ اَمانت اور نیک کرداری کا علم ہوا۔ اُنہوں نے آپ سے درخواست کہ آپ میرا مالِ تجارت لے کر شام جائےں۔ میں اَب تک دوسرے تاجروں کو منافع میں سے جس قدر حصّہ دیتی تھی اُس سے بہت زیادہ آپ کو دوں گی اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ کر دوں گی۔ آپ نے یہ تجویز منظور فرمائی اور اُن کا مال لے کر روانہ ہوئے۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کا غلام بھی اُن کے ساتھ تھا۔ دونوں شام آئے‘ وہاں نسطور راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں فروکش ہوئے۔ راہب نے میسرہ سے پوچھا یہ ہستی جو درخت کے نیچے اُتری ہیں‘ یہ کون ہیں؟ اُس نے کہا‘ یہ اہلِ حرم کے ہاشمی قریش خاندان کے ایک صالح‘ اَمانتدار‘ اور سچے اِنسان ہیں۔ راہب نے کہا‘ اِن کی آنکھوں میں سرخی ہے۔ میسرہ نے کہا ‘ہاں یہ سرخی کبھی اِن سے جدا نہیں ہوتی۔ نسطور نے کہا‘ یہ پیغمبر ہیں اور سب سے آخری پیغمبر ہیں۔ (طبقات ابن سعد)

ضرور پڑھیں: وزارت داخلہ:کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا فیصلہ
راہب نے کہا‘ اِس درخت کے نیچے سوائے نبی اللہ ؑ کے اور کوئی شخص آج تک فروکش نہیں ہوا۔ رسولِ کریم نے‘ یہاں جو مال لائے تھے بیچ دیا اور جو خریدنا تھا وہ خرید لیا۔ آپ مکہ مکرمہ واپس پلٹے۔ میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ دوپہر اور سخت گرمی کے وقت میسرہ کیا دیکھتا ہے کہ آپ اُونٹ پر سوار ہوتے ہیں اور دو فرشتے آپ کو تمازت ِآفتاب سے بچانے کے لیے سایہ کر لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس کے دِلنشین ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اُس کے دِل میں نبی کریم کی اَیسی محبت ڈال دی کہ گویا وہ نبی کریم کا غلام بن گیا۔

جب قافلے نے اپنا تجارتی سامان فروخت کرکے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ وہ واپس چلے تو مقام مرالظہران میں پہنچ کے میسرہ نے عرض کیا‘ یا محمد آپ‘ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کے پاس چل دیجئے۔ آپ کے باعث‘ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کو اللہ تعالیٰ نے نفع دیا ہے‘ اُس کی حضرت سیّدہ خدیجہؓ کو اِطلاع کیجئے۔ وہ آپ کا حق یاد رکھیں گی۔ رسولِ کریم اِس رائے کے مطابق پہلے روانہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓ بالا خانے پر بیٹھی ہوئی تھیں‘ دیکھا کہ رسولِ کریم اُونٹ پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر اُدھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓ نے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اِس دِلکش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اُس نے حضرت سیّدہ خدیجہؓ کو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتا آیا ہوں۔ میسرہ نے وہ باتیں بھی کہہ دیں جو نسطور راہب نے کہیں تھیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہؓ نے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا۔ تجارتی قافلہ کے دوچند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دوچندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البدایہ والنہایہ)

اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہؓ نے خوا ب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب اُن کے گھر میں اُتر آیا ہے اور اُس کا نور اُن کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر اَیسا نہیں تھا جو اُس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے بیان کیا۔ اُس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخرالزماں تم سے نکاح کریں گے۔

 حضرت جبرا ئیلؑ جب پہلی وحی لے کر آئے اور عرض کیا اِق±رَائ± بِاس±مِ َربِّکَ الَّذِی± خَلَقَo خَلَقَ ال±اِن±سَانَ مِن± عَلَقٍo اِق±رَائ± وَرَبُّکَ ال±اَک±رَمُo رسولِ کریم اِن آیاتِ مبارکہ کو لے کر لوٹے آپ کا قلب مضطرب تھا۔ آپ حضرت سیّدہ خدیجہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ نے فرمایا: مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ حتیٰ کہ آپ کا اِضطراب جاتا رہا۔ آپ نے حضرت سیّدہ خدیجہؓ سے فرشتے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے اِرشادِ مبارک فرمایا! مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے جواب میں عرض کیا: ”نہیں نہیں آپ کو ڈر کاہے کا۔ بخدا‘ اللہ آپ کو ہر ایک مشقت سے بچائے گا۔ بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں درماندوں کی دستگیری کرتے ہیں تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں‘ اصلی مصیبت زدوں کی امداد فرماتے ہیں۔“ (بخاری حدیث نمبر 3)

حضرت ابو طالب کی وفات کے چند ہی روز تقریباً 35 دن بعد 10 رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہؓ وصال فرما گئیں۔ آپ کے دونوں مددگار اور غمگسار اُٹھ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جو اِسلام کے لئے سخت ترین تھا۔ خود نبی کریم اِس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا کرتے تھے۔

اُمُّ المو¿منین حضرت سیّدہ خدیجہؓ نے 65 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حجون کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا۔ اَبھی تک نماز جنازہ کا آغاز نہیں ہوا تھا جب مرقد پاک تیار ہوگئی تو حضور نبی کریم خود اُس میں تشریف لے گئے پھر اُس قبر اَنور میں حضرت سیّدہ خدیجہؓ کو ا ﷲ کے سپرد فرما دیا ۔

خراجِ شفقت :

اُمّ المو¿منین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں۔ آپ نے اِن الفاظ میں اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کو خراجِ شفقت عطا فرمایا : ”وہ مجھ پر اِیمان لائیں جب اوروں نے کفر کیا۔ اُس نے میری تصدیق کی جبکہ اَوروں نے مجھے جھٹلایا اُس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور مجھے کسبِ مال سے روکا۔ اﷲ نے مجھے اُس کے بطن سے اَولاد دی جبکہ کسی دوسری بیوی سے نہ ہوئی۔( الاستعیاب‘ رحمة اللعالمین جلد 2‘ سیرت النبی جلد 2)
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تجارت میں دو نانفع

    سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا ہر جگہ چرچا تھا حتی کہ مشرکین مکہ بھی انہیں الامین والصادق سے یاد کرتے، سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کاروبار کے لئے یکتائے روزگار کو منتخب فرمایا اور سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں پیغام پہنچایا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال ِ تجارت لے کر شام جائیں اور منافع میں جو مناسب خیال فرمائیں لے لیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس پیشکش کو بمشورۂ ابوطالب قبول فرمالیا۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے غلام میسرہ کو بغرض خدمت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ کردیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنا مال بصرہ میں فروخت کرکے دونا نفع حاصل کیا نیز قافلے والوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی صحبت بابرکت سے بہت نفع ہوا جب قافلہ واپس ہوا تو سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دیکھا کہ دو فرشتے رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر سایہ کنا ں ہیں نیزدوران سفر کے خوارق نے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کاگرویدہ کردیا۔

(مدارج النبوت،قسم دوم،باب دوم درکفالت عبدالمطلب …الخ،ج۲،ص۲۷)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح

    سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے نکاح کے خواہشمند تھے
لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا۔ سردار دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بھی اپنے چچا ابوطالب، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر رؤساء کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا۔
(مدارج النبوت،قسم دوم،باب دوم درکفالت عبدالمطلب …الخ،ج۲،ص۲۷)
    بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النساء…الخ،ذکرخدیجہ بنت خولید،ج۸،ص ۱۳)
    جب تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاحیات رہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی موجودگی میں پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا۔
(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۴)
غم گسار بیوی
    غارِ حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہِ رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں وحی لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا پڑھئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: کہ ”ما انا بقارئ” میں نہیں پڑھتااس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اپنی آغوش میں لے کر بھینچاپھرچھوڑ کر دوبارہ کہا: پڑھئے، میں نے کہا: میں نہیں پڑھتا، جبرائیل علیہ السلام نے پھر آغوش میں لے کر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا پڑھئے میں نے کہا میں نہیں پڑھتا۔ تیسری مرتبہ پھر جبرائیل علیہ السلام نے آغوش میں لے کربھینچاپھرچھوڑکر کہا:
اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾خَلَقَ الْاِنۡسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾اِقْرَاۡ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۙ﴿۳﴾الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۙ﴿۴﴾عَلَّمَ الْاِنۡسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ؕ﴿۵﴾
ترجمۂ کنزالایمان : پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔(پ30،العلق:1تا5)
اس پر مژدہ واقعہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی طبیعت بے حد متأثِر ہوئی گھر واپسی پر سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: ”زملونی زملونی”مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے جسم انور پر کمبل ڈالا اور چہرہ انور پر سرد پانی کے چھینٹے دیئے تاکہ خشیت کی کیفیت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا حال بیان فرمایا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ اچھا ہی فرمائے گاکیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم صلۂ رحمی فرماتے، عیال کا بوجھ اٹھاتے، ریاضت و مجاہدہ کرتے، مہمان نوازی فرماتے، بیکسوں اور مجبوروں کی دستگیری کرتے، محتاجوں اور غریبوں کے ساتھ بھلائی کرتے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے، لوگوں کی سچائی میں انکی مدد اور ان کی برائی سے حذر فرماتے ہیں، یتیموں کو پناہ دیتے ہیں سچ بولتے ہیں اور امانتیں ادا فرماتے ہیں۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ان باتوں سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
 واٰلہ وسلم کو تسلی و اطمینان دلایا کفار قریش کی تکذیب سے رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم جو غم اٹھاتے تھے وہ سب سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا او رآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم خوش ہوجاتے تھے اور جب سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تشریف لاتے تو وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی۔
( مدارج النبوت،قسم دوم،باب سوم دربدووحی وثبوت نبوت …الخ،ج۲،ص۳۲ وقسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴۶۵)
سابق الایمان
    مذہب جمہور پر سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ کیونکہ جب سرور دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم غارحرا سے تشریف لائے اور ان کو نزول وحی کی خبر دی تو وہ ایمان لائیں۔ بعض کہتے ہیں ان کے بعد سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے بعض کہتے ہیں سب سے پہلے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف دس سال کی تھی۔ شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں۔ کہ سب سے زیادہ محتاط اور موزوں تر یہ ہے کہ آزاد مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں اور نو عمروں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورتوں میں سیدتنا خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور موالی میں زيد بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور غلاموں میں سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے۔
(مدارج النبوت،قسم دوم،باب سوم دربدووحی وثبوت نبوت …الخ،ج۲،ص۳۷)
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فراخدلی
   حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: اللہ کی
قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولادعطافرمائی۔
 (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،حضرت خدیجۃام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۶۳۔الاستیعاب،کتاب النساء:۳۳۴۷،خدیجۃ بنت خویلد،ج۴، ص۳۷۹)
    حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب کہ لوگ میری تکذیب کرتے تھے اور انہوں نے اپنے مال سے میری ایسے وقت مدد کی جب کہ لوگوں نے مجھے محروم کررکھا تھا۔
 (المسندللامام احمد بن حنبل،مسند السیدۃعائشۃ،الحدیث۲۴۹۱۸،ج۹،ص۴۲۹)
اولادِ کرام
    حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں۔
 (السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خدیجۃ، اولادہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ص۷۷۔اسدالغابۃ،کتاب النساء،خدیجۃ بنت خولید،ج۷،ص۹۱)
نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
Exit mobile version