عمر اور مال مال کی زیادتی کب نعمت ہے

عمر اور مال مال کی زیادتی کب نعمت ہے

(۱)’’عَنِ ابْنِ شَدَّادٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ أَحَدٌ أَفْضَلَ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ مُؤْمِنٍ یُعَمَّرُ فِی الْإِسْلَامِ لِتَسْبِیْحِہِ وَتَکْبِیْرِہِ وَتَہْلِیْلِہِ‘‘۔ (1)
حضرت ابن شداد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک اس مومن سے افضل کوئی نہیں ہے جس نے خدائے تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر اور اس کی عبادت و تہلیل کے لیے اسلام میں زیادہ عمر پائی۔ (احمد، مشکوۃ)
(۲)’’عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ قَالَ فَأَیُّ النَّاسِ شَرٌّ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَسَاء عَمَلُہُ‘‘۔ (2)
ابوبکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ ! کون آدمی بہت اچھا ہے ؟ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ وہ شخص جس کی عمر زیادہ ہو اور عمل اچھے ہوں۔ پھر عرض کیا کہ کون آدمی بہت بُرا ہے ؟ فرمایا وہ شخص جس کی عمر زیادہ ہو اور عمل برے ہوں۔ (ترمذی)
(۳)’’عَنْ أَبِی سَعِیدِنِ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ ہَذَا الْمَالَ خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ فَمَنْ أَخَذَہُ بِحَقِّہِ وَوَضَعَہُ فِی حَقِّہِ فَنِعْمَ الْمَعُونَۃُ‘‘۔ (3)
حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ (دنیا کا) مال سبز رنگین ترو تازہ اور لذیذ ہے تو جو شخص اس کو جائز طریقے سے حاصل کرے اورجائز مصارف میں صرف کرے تو ایسا مال بہترین مددگار ہے ۔ (بخاری، مسلم)
(۴)’’عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا بَأْسَ بِالْغِنَی لِمَنْ اتَّقَی اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَالصِّحَّۃُ لِمَنْ اتَّقَی خَیْرٌ مِنْ الْغِنَی وَطِیبُ النَّفْسِ مِنَ النَّعِیْمِ‘‘۔ (1)
حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے ایک صحابی نے کہا کہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرے اس کے لیے مالدار ہونا کوئی حرج نہیں اور پرہیزگار آدمی کے لیے جسمانی تندرستی مالداری سے بہتر ہے اور خوش دلی بھی خدائے تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ( ایک عظیم نعمت ) ہے ۔ (مشکوۃ)
(۵)’’عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ قَالَ کَانَ الْمَالُ فِیْمَا مَضَی یَکْرَہُ فَأَمَّا الْیَوْمَ فَھُوَ تُرْسُ الْمُؤْمِنِ وَقَالَ لَوْلاَ ھَذِہِ الدَّنَانِیْرُ لَتَمَنْدَلَ بِنَا ہَؤُلَائِ الْمَلُوْک وَقَالَ مَنْ کَانَ فِیْ یَدِہِ مِنْ ھَذِہِ شَیْئٌ فَلْیُصْلِحْہُ فَإِنَّہُ زَمَانٌ إِنِ احْتَاجَ کَانَ أَوَّلُ مَنْ یَّبْذُلُ دِیْنَہُ وَقَالَ الْحَلَالُ لَا یَحْتَمِلُ السَّرَفَ‘‘۔ (2)
حضرت سفیان ثوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اگلے زمانہ میں مال کو بُرا سمجھا جاتا تھا لیکن آج کل مال مومن کی ڈھال ہے ۔ اور فرمایا اگر یہ زر و دینار ہمارے پا س نہ ہوتے تو یہ ( ظاہر پرست) بادشاہ ہم لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھتے ۔ اور فرمایا کہ جس شخص کے پاس کچھ مال ہو اسے چاہیے کہ اسے ٹھیک سے رکھے ( یعنی اس کے بڑھانے کی تدبیریں کرے )
اس لیے کہ یہ ایسا زمانہ ہے کہ اگر کوئی محتاج ہوجائے گا تو وہی سب سے پہلے اپنے دین کو ( دنیا کے عوض ) بیچ ڈالے گا۔ اور فرمایا کہ حلال مال فضول خرچی میں ضائع نہیں ہوتا۔ (شرح السنۃ، مشکوۃ)

٭…٭…٭…٭

________________________________
1 – ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الرقاق، الفصل الثالث، الحدیث: ۵۲۹۰، ج۲، ص۲۶۲.
2 – ’’ شرح السنہ‘‘، الحدیث:۳۹۹۳، ج۷، ص۳۲۱، ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الرقاق، الفصل الثالث، الحدیث: ۵۲۹۱، ج۲، ص۲۶۲.

Exit mobile version