حکایت نمبر266: اُڑتا ہوا دسترخوان
حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:” میں ملکِ شام کے پہاڑی علاقوں میں تھا۔ وہاں چندایسے لوگو ں کو دیکھاجنہوں نے اُونی چوغے پہنے ہوئے تھے، ہر ایک کے ہاتھ میں پانی پینے کا ڈول اور لاٹھی تھی۔انہوں نے مجھے دیکھا توکہنے لگے: آؤ، ابو فیض ذُوالنُّوْن مِصْرِی کی طرف چلتے ہیں ۔ وہ میرے پاس آئے اور سلام کیا: میں نے جواب دیا اور پوچھا:” تم کہا ں سے آئے ہو؟”ایک نے جواب دیا:”ہم الفت ومحبت کے باغات سے آئے ہیں۔” میں نے پوچھا: ”کس کی مدد سے تم یہاں پہنچے؟” کہا :”اس پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی مدد سے جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے ۔”
میں نے پوچھا :”تم وہاں کیا کرتے ہو؟ ” دوسرے شخص نے کہا:” ہم وہاں وجْدکے پیالوں سے اُلفت ومحبت کے جام پیتے ہیں۔ ”میں نے کہا:” آخر وہ کون ہے جو اس معاملے میں تمہاری مدد کرتا ہے ؟”کہا:” دلوں کو بزرگی بخشنے والی، محبوب کی ہمدردی پیدا کرنے والی ،خالص کوشش اور انتہائی اشکباری اس معاملے میں ہماری مد دگار ہے۔ جب ہم محبت کا جام پی لیتے ہیں تو اس کے
سبب غفلت کے اندھیرے ہم سے دور ہوجاتے اور ابرِ رحمت ہم پرچھما چھم بر ستے ہیں ۔”پھروہ آپس میں کہنے لگے : ”یہ ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی ہیں جو اُلفت ومحبت کے بارے میں بہترین کلام کرنے والے ہیں۔” وہ لوگ یہ بات کرہی رہے تھے کہ بہت تیز ہوا چلی ، میں نے دیکھا کہ ہوا اپنے ساتھ ایک بڑا دستر خوان لے کر آئی جس پر انواع و اقسام کے کھانے بہت سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ وہ دستر خوان ہمارے سامنے آکر بِچھ گیا ۔ میں نے کہا :” پاک ہے وہ پروردگارعَزَّوَجَلَّ جو اپنے اولیاء کی ضیافت کرنے والااوران پر کرم فرمانے والاہے۔” پھر وہ لوگ مجھ سے کہنے لگے: ” اے ذُوالنُّوْن! تم تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی ہو ۔”
میں نے کہا:” میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ درجۂ وِلایت مجھے مل جائے۔” یہ سن کر انہوں نے مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھا ۔میں نے کہا:” مجھے نصیحت کرو اور میرے لئے خصوصی دعا کرو۔ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ پہاڑ سے کچھ نوجوان ہماری طرف آئے، سلام کیااور کہا :
” اے ہمارے بھائیو! ناکارہ ذُوالنُّوْن کا کیا حال ہے؟ اس کی خواہشیں پوری ہی نہیں ہوتیں اور نہ وہ اپنی خواہشات سے بازآتاہے۔”اتناکہہ کر وہ سب دستر خوان کے گرد بیٹھ گئے اور کھانا شرو ع کردیا۔ دوسرے لوگ بھی ان نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے ، لیکن مجھے کسی نے بھی نہ بلایا ، پھر ان نوجوانوں نے مجھ سے کہا: ”اے ذُوالنُّوْن مِصْرِی! اگرتم کمزور یقین والے ہو تَو حق کی محافل میں حاضر کیوں نہیں ہوتے ؟ اور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی صحبت میں کیوں نہیں بیٹھتے۔” کھانا کھاکر وہ سب تو چلے گئے لیکن میں حیران ومتعجب وہیں کھڑا رہا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)