حکایت نمبر468: تین قبروں کا عجیب وغریب واقعہ
حضرتِ سیِّدُناعبیداللہ بن صَدَقَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والدکے حوالے سے بیان فرماتے ہیں:”ایک دفعہ میں اَنْطَابُلُسْ میں تھا وہاں میں نے تین قبریں دیکھیں جوکافی اونچی جگہ پربنی ہوئی تھیں۔قریب گیاتوایک قبرپریہ اشعارلکھے ہوئے تھے:
؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ ہُوَعَالِمٌ
بِاَنَّ اِلٰہَ الْخَلْقِ لَا بُدَّ سَائِلُہُ
فَیَاْخُذُ مِنْہُ ظُلْمَہُ وَیَجْزِیْہِ
بِالْخَیْرِ الَّذِیْ ہُوَ فَاعِلُہُ
ترجمہ:وہ زندگی کامزاکیسے پاسکتاہے جوجانتاہے کہ خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ اس سے پوچھ گَچھ کرنے والااوراس کے اچھے بر ے اعمال کا بدلہ دینے والا ہے۔
دوسری قبرپریہ اشعاردرج تھے:
؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ کَانَ مُوْقِنًا
بِاَنَّ الْمَنَایَا بَغْتَۃً سَتُعَاجِلُہُ
فَتَسْلُبُہُ مُلْکًا عَظِیْمًا وَنَخْوَۃً
وَتُسْکِنُہُ الْبَیْتَ الَّذِیْ ہُوَ آہِلُہُ
ترجمہ:وہ شخص زندگی کامزاکیسے پاسکتاہے جسے پختہ یقین ہوکہ موت اس کو جلدہی آدبوچے گی، اس کی سلطنت وتکبرچھین لے گی اوراس کو اندھیری کوٹھڑی میں ڈال دے گی۔
تیسری پریہ اشعاردرج تھے:
؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ کَانَ صَائِرًا
اِلٰی جَدَثٍ تُبْلِی الشَّبَابَ مَنَاہلُہُ
وَیَذْہَبُ رَسْمُ الْوَجْہِ مِنْ بَعْدِ صَوْ تِہٖ
سَرِیْعًا وَّیُبْلِیْ جسْمَہُ وَمُفَاصِلَہُ
ترجمہ:وہ شخص زندگی کامزاکیسے پاسکتاہے جوایسی قبرکامکین بننے والاہوجواس کے حسن وشباب کوخاک میں ملادے گی،اس کے چہرے کی چمک دمک ختم کردے گی اوراس کاجوڑجوڑعلیحدہ کردے گی ۔
یہ قبریں دیکھ کرمیں بستی کی طرف آیاتو ایک ضعیف ُ العمر شخص سے ملاقات ہوئی۔میں نے اسے کہا:”مَیں نے تمہاری بستی میں ایک عجیب بات د یکھی ہے۔”اس نے پوچھا:”کون سی بات؟”میں نے اسے قبروں کامعاملہ بتایاتواس نے کہا:”ان کاواقعہ انتہائی عجیب وغریب ہے۔”میں نے کہا:”اگرواقعی ایسی بات ہے تومجھے بتاؤ کہ یہ تین قبریں کن کی ہیں اوران پریہ اشعارلکھنے کی کیا وجہ ہے؟”یہ سن کر بوڑھے نے کہا: ”اس علاقے میں تین بھائی رہتے تھے، ایک بھا ئی کوبادشاہ نے شہروں اور فوجی لشکروں پر امیر مقرر کر رکھاتھا اوروہ بڑاظالم وسفّاک تھا۔دوسرا نیک دل تاجرتھا، جب بھی کوئی پریشان حال غریب اس سے مدد طلب کرتا تووہ اس کی مددکرتا۔جبکہ تیسرابھائی عابدوزاہدتھااس نے دنیوی مشاغل چھوڑ کرعبادت وریاضت اختیارکرلی تھی۔ جب عابد کی وفات کاوقت قریب آیاتودونوں بھائیوں نے کہا:”پیارے بھائی !آپ ہمیں کوئی وصیت کیوں نہیں کرتے؟” عابد
نے کہا:”خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم! میرے پاس نہ تو مال ہے ،نہ ہی میراکسی پرقرض ہے، نہ ہی کوئی دنیوی مال چھوڑ کر جا رہاہوں جس کے ضائع ہونے کامجھے اندیشہ ہو، اب تم ہی بتاؤکہ میں کس چیزکی وصیت کروں؟”
یہ سن کر اس کے حاکم بھائی نے کہا:”اے میرے بھائی !میرا مال آپ کے سامنے موجودہے ،آپ جوبھی حکم فرمائیں گے میں اسے پو راکروں گا۔” پھر اس کے تاجربھائی نے کہا:”اے میرے بھائی !آپ میری تجارت اورمالِ تجارت سے خوب واقف ہیں، میرے پاس مال کی فراوانی ہے ،اگرکوئی ایساعمل رہ گیاہوجوصرف مال ودولت خرچ کرکے ہی پوراکیاجاسکتاہے اور آپ وہ نیک عمل نہیں پاتے تو میرا تمام مال آپ کی خدمت میں حاضرہے، آپ جوحکم فرمائیں گے میں پورا کر و ں گا۔”
عابد نے کہا:”اے میرے بھائیو!مجھے تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ۔ہا ں! میں تم سے ایک عہد لیناچاہتاہوں، اگر ہو سکے تواسے پوراکر دینا، اس میں کوتاہی نہ کرنا۔”دونوں نے کہا: ” آ پ جوچاہیں عہدلیں ہم آپ کی ہرخواہش پوری کریں گے۔” عابد نے کہا:”جب میں مرجاؤں توغسل وکفن کے بعدمجھے کسی او نچی جگہ دفنانا اور میری قبرپریہ اشعارلکھ دینا:
؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ ہُوَعَالِمٌ
بِاَنَّ اِلٰہَ الْخَلْقِ لَا بُدَّ سَائِلُہُ
فَیَاْخُذُ مِنْہُ ظُلْمَہُ وَیَجْزِیْہِ
بِالْخَیْرِ الَّذِیْ ہُوَ فَاعِلُہُ
یہ اشعارلکھ کرتم دونوں میری قبرکی زیارت کے لئے روزانہ آتے رہنا،شاید! تمہیں نصیحت حاصل ہو۔”جب عابد کا انتقال ہوگیا توحسبِ وصیت اس کی قبرپرمندرجہ بالااشعارلکھ دیئے گئے۔اس کاحاکم بھائی اپنے لشکرکے ساتھ دودن تک اس کی قبر پر آیا اور اشعار پڑھ کرروتارہا۔ تیسرے دن بھی کافی دیرتک روتارہا،جب واپس جانے لگاتواس نے قبرکے اندرسے ایک خوفناک دھماکے کی آواز سنی، قریب تھاکہ اس کادل پھٹ جاتا۔خوف کے مارے وہ سرپرپاؤں رکھ کر بھاگا اور گھر پہنچ کردَم لیا۔وہ بہت زیادہ غمگین وخوف زدہ تھا۔رات کوخواب میں اپنے بھائی کودیکھ کرپوچھا:”اے میرے بھا ئی !تمہاری قبرسے جو آوازمیں نے سنی وہ کس چیزکی تھی”؟کہا:”یہ جہنمی ہتھوڑے کی آوازتھی جومیری قبرمیں ماراگیااورمجھ سے کہاگیا: ”تونے ایک مظلوم کو دیکھا اور باوجودِ قدرت اس کی مددنہ کی،یہ اس کی سزاہے۔”یہ خواب دیکھ کراس نے وہ رات بڑی بے چینی میں گزاری۔ صبح اپنے تاجر بھائی اوردوسرے عزیزوں کو بلا کر کہا: ”اے میرے بھائی!ہمارے عابدبھائی نے اپنی قبر پر عبرت آموزاشعار لکھواکرہمیں بہت اچھی نصیحت کی، میں تم سب کوگواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اب میں تمہارے درمیان نہیں رہوں گا۔ ” پھر اس نے اَمارت وحکومت چھوڑی اور پہاڑوں اورجنگلوں میں جاکرعبادت وریاضت میں مشغول ہوگیا۔جب خلیفہ عبدالمَلِک بن مَرْوَان کو اطلاع ملی تو اس نے کہا: ”اسے اس کی حالت پرچھوڑدو۔” جب اس کی موت کاوقت قریب آیا تو چندچرواہوں کے ذریعے اس نے اپنے تاجر بھائی کو بلوا بھیجا۔ اس نے آکر کہا: ”اے میرے بھائی !آپ مجھے کوئی وصیت کیوں نہیں کرتے۔”اس نے کہا:”میرے پاس مال
ودولت نہیں جس کی وصیت کروں ، بس میں تو تم سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں ۔ سنو!جب میں مرجاؤں تومجھے میرے عابد بھائی کے پہلو میں دفناکرمیری قبرپریہ اشعارلکھ دینا:
؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ کَانَ مُوْقِنًا
بِاَنَّ الْمَنَایَا بَغْتَۃً سَتُعَاجِلُہُ
فَتَسْلُبُہُ مُلْکًا عَظِیْمًا وَنَخْوَۃً
وَتُسْکِنُہُ الْبَیْتَ الَّذِیْ ہُوَ آہِلُہُ
یہ اشعارلکھنے کے بعدمسلسل تین دن تک میری قبر پرآنااورمیرے لئے دعاکرناشایداللہ عَزَّوَجَلَّ مجھ پررحم فرمائے اورمجھے بخش دے۔”یہ کہہ کراس کاانتقال ہوگیا۔تاجرحسبِ وصیت مسلسل دودن تک آیا۔جب تیسرے دن آیاتواس کی قبر کے پاس بیٹھ کر دعا کرتا رہا اور مسلسل روتا رہا۔جب واپس جانے کاارادہ کیاتواس نے قبرمیں دیوارکے گرنے کی آوازسنی ۔آوازاتنی خطر ناک تھی کہ عقل ضائع ہونے کاخطرہ تھا۔وہ خوف زدہ اورغمگین ہوکرگھرآگیا۔جب سویاتوخواب میں اپنے بھائی کودیکھ کر پوچھا: ”اے میرے بھائی! آپ ہمارے گھرکیوں نہیں آتے؟”اس نے کہا:”ہم ایسے مقامات پرہیں کہ کہیں جانے کوجی نہیں چا ہتا۔”تاجرنے کہا:”بھائی آپ کا کیا حال ہے؟”کہا:”توبہ کی برکت سے ہرخیروبھلائی نصیب ہوئی ہے ۔”میں نے کہا:”میر ے عابدبھائی کا کیا حال ہے؟” کہا: ”وہ ابراروں (یعنی نیک لوگوں)کے ساتھ ہے۔”پوچھا:”آپ کی طرف سے ہمیں کیانصیحت وحکم ہے؟” کہا: ”جوکوئی دنیامیں رہ کر آخرت کے لئے کچھ بھیجے گااسے وہاں ضرورپائے گا۔پس تُواپنے لئے آخرت کاذخیرہ اکٹھا کر اور موت سے پہلے کچھ اعمالِ صالحہ جمع کر لے۔”
تاجرنے صبح ہوتے ہی دنیاکوخیربادکہہ کرتمام مال تقسیم کردیااوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کے لئے کمر بستہ ہوگیا۔اس کاایک بیٹا تھا جو انتہائی حسین وجمیل اورسمجھ دارتھا۔اب اس نے تجارت شروع کر دی اورخوب مال دارہوگیا۔جب اس کے باپ کی وفات کا وقت قریب آیاتواس نے اپنے باپ سے کہا: ”اباجان! کیاوجہ ہے کہ آپ مجھے کوئی وصیت نہیں کررہے ؟ ‘ ‘ ا س نے کہا:”میرے بیٹے! خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!تیرے باپ کے پاس مال نہیں ہے جس کے متعلق تجھے وصیت کرے۔ہاں! میں تجھ سے ایک عہد لیتاہوں کہ جب میں مرجاؤں تومجھے اپنے دونوں چچاؤں کے ساتھ دفنانااورمیری قبرپریہ اشعارلکھ دینا:
؎ وَکَیْفَ یَلُذُّ الْعَیْشَ مَنْ کَانَ صَائِرًا
اِلٰی جَدَثٍ تُبْلِی الشَّبَابَ مَنَاہلُہُ
وَیَذْہَبُ رَسْمُ الْوَجْہِ مِنْ بَعْدِ صَوْ تِہٖ
سَرِیْعًا وَّیُبْلِیْ جسْمَہُ وَمُفَاصِلَہُ
اورجب توتدفین سے فارغ ہوجائے توکم ازکم تین دن تک میری قبرپرآنااورمیرے لئے دعاکرنا۔ ” بیٹے نے حسبِ وصیت باپ کودونوں چچاؤں کے ساتھ دفن کیااورروزانہ زیارت کے لئے آنے لگا۔ تیسرے دن قبر سے ایک خطرناک آوازسنی توخوف زدہ وغمگین ہوکر گھر لو ٹ آیا۔ جب سویاتوخواب میں اس کا والدکہہ رہاتھا:”اے میرے بیٹے!تم ہمارے پاس بہت کم وقت
کے لئے آئے۔ سنو! موت بہت قریب ہے اورآخرت کاسفربہت کٹھن ہے ،جلدی سے سفرِ آخرت کی تیاری کر لو اورزادِراہ تیارکر لو۔بس آخرت کی منزل کی طرف تمہارا کوچ ہونے والاہے ۔جلدہی تُم اس فانی دنیاکوچھوڑنے والے ہو،اس دھوکے بازدنیاسے اس طرح دھوکہ نہ کھانا جیسے تجھ سے پہلے لوگ بڑی بڑی اُمیدیں دل میں لئے یہاں سے چل بسے۔انہوں نے حشرکے معاملے کومعمولی جانا تو موت کے وقت شدید نادم ہوئے اورگزری ہوئی زندگی پرانہیں بہت افسوس ہوا۔جب موت منہ کو آ جا ئے تواس وقت کی ندامت کوئی فائدہ نہیں دیتی اوراس وقت کاافسوس قیامت کے نقصان سے ہرگزنہ بچائے گا۔اے میر ے بیٹے!جلدی کر،جلدی کر، جلدی کر! (موت کی تیاری کرلے)۔
راوی کہتے ہیں:”جوبوڑھا مجھے یہ واقعہ بیان کررہاتھااس نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:اس نوجوان نے ہمیں اپنا خواب سنایااور کہا:”معاملہ بالکل ویساہی ہے جیسامیرے والدنے بیان کیا،میراغالب گمان ہے کہ موت نے مجھ پر اپنے پَر پھیلانا شروع کردیئے ہیں ۔ ‘ ‘ پھر اس نے اپناقرض اداکیا، کاروباری شریکوں سے معاملہ صا ف کیا،اپنے دوستوں اوراہلِ قرابت سے معافی مانگی، انہیں سلامتی کی دعادی ،ان سے اپنی سلامتی کی دعاکاوعدہ لیا،پھرسب کویوں”اَلْوَدَاع” کہنے لگاجیسے کسی بہت بڑے حادثے سے دوچار ہونے والا ہو۔پھرکہا:”میرے و ا لدنے مجھ سے تین مرتبہ کہاتھا:”جلدی کر،جلدی کر،جلدی کر۔” اگر اس سے مرادتین گھنٹے تھے تو وہ گزرگئے، اگرتین دن مرادہیں تومیں تین دن بعد ہرگزتمہارے پاس نہ رہ سکوں گا،اگر تین مہینے مرادہیں تو وہ بہت جلد گزر جائیں گے، اگر تین سال مراد ہیں تواگرچہ یہ ایک بڑی مدت لگتی ہے لیکن یہ بھی جلدگزرجائے گی ، خواہ مجھے پسندہویانہ ہو موت بالآخر ضرور آکر رہے گی۔وہ نو جو ا ن یہ کہتاجاتااوراپنامال و دولت تقسیم کرتاجاتا۔ جب تین دن مکمل ہوئے تو اس نے اپنے اہلِ خانہ کو اور انہوں نے اسے الوداع کہا۔پھر قبلہ رُخ لیٹ کر آنکھیں بندکیں،کلمۂ شہادت پڑ ھااور اس کی روح دارِ فانی سے دارِ عقبیٰ کی طرف پروازکرگئی۔ اس کی موت کی خبرسن کرکچھ ہی دیرمیں مختلف علاقوں سے لوگ جمع ہوگئے۔اورآج تک لو گو ں کایہ معمول ہے کہ وہ مختلف شہروں اورعلاقوں سے آآکراس کی قبرکی زیارت کرتے اوراسے سلام کرتے ہیں۔ ”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)