تین بہادر بھائی
حضرت سیدنا علی بن یزیدی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے وا لدِ گرامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :”ملکِ شام سے مجاہدینِ اسلام کا لشکر دینِ حق کی سربلندی کے مقدس جذبہ سے سرشار دلوں میں شہادت کا شوق لئے روم کے عیسائیوں سے جہاد کرنے روانہ ہوا۔
اس عظیم لشکر میں تین سگے بھائی بھی شامل تھے ۔تنیوں شجاعت وبہادری، جنگی مہارت ، حسن وجمال اورزہد وتقوی میں اپنی مثال آپ تھے ۔وہ جامِ شہادت نوش کرنے کے لئے ہروقت تیار رہتے ۔ لشکرِ اسلام کفار کی سرکوبی کے لئے منزلوں پر منزلیں طے کرتا روم کی سرحد کی جانب بڑھتا چلا جارہاتھا۔ ان تینوں بھائیوں کا انداز ہی نرالا تھا وہ لشکر سے علیٰحدہ ہوکر چلتے ، جب لشکرِ اسلام کسی جگہ قیام کرتا تووہ لشکر سے کچھ دور قیام کرتے ۔ اگر کہیں ان کے ہم پلّہ یا ان سے زیادہ طاقتور دشمن نظر آجاتے تو یہ تین افراد پر مشتمل مختصر ساقافلہ آن کی آن میں انہیں ختم کردیتا۔
جب مجاہدین کا لشکر رومی سرحد کے قریب پہنچ گیا تو اچانک مسلمانوں کے ایک دستے پر رومی سپاہیوں کے ایک دستے نے حملہ کردیا ۔رومیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ اسلام کے جیالے اپنی جانوں سے بے فکر مجاہدانہ وار روم کی عیسائی فوج سے برسرِپیکار تھے ۔ مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ اچانک رومیوں نے مسلمانوں پر شدید حملہ کردیا اوربہت سے مسلمان جامِ شہادت نوش کرگئے اور کچھ قید کرلئے گئے ۔ جب ان تین بھائیوں کو یہ خبر ملی تو وہ تڑپ اُٹھے اورایک دوسرے سے کہنے لگے :”اب ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کو پہنچیں اور راہ ِخدا عزوجل میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں ۔
چنانچہ اسلام کے یہ تینوں شیر غیظ وغضب کی حالت میں میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہوئے ۔وہاں مسلمان بہت سختی کی حالت میں تھے ۔انہوں نے وہاں پہنچ کر نعرئہ تکبیر بلند کیا اورکہا :”اے ہمارے مسلمان بھائیو!اب تم نہ گھبراؤ، ہم تمہاری مدد کو پہنچ چکے ہیں۔ سب کے سب جمع ہوجاؤ اور ہمارے پیچھے پیچھے رہو ۔ ان شاء اللہ عزوجل ان رومی کُتّوں کو ہم تینوں شیر ہی کافی ہیں ۔
یہ سن کر مسلمانوں کا جذبہ بڑھا اور وہ ایک جگہ جمع ہونے شروع ہوگئے۔ ان تینوں بھائیوں نے آندھی وطوفان کی طرح رومیوں کی فوج پر حملہ کیا جس طرف جاتے لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے، ان کی تلواروں اورنیزوں نے ایسے جنگی جوہر دکھائے کہ رومیوں کو اس معرکہ میں منہ کی کھانی پڑی اوروہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اوراپنے لشکر سے جا ملے ۔
وہ رومی جو اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ آج ہم مسلمانوں پرغالب آجائیں گے جب ان پر اسلام کے بپھرے ہوئے ان تین شیروں نے حملہ کیا تو رومی ، لومڑی کی طرح میدان جنگ سے بھاگ گئے ۔جب روم کے عیسائی بادشاہ کو یہ خبر ملی کہ
اسلام کے تین شیروں نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیاتوبادشاہ کو ان کی بہادری پر بڑا تعجب ہوا اوراس نے اعلان کیا:” جو کوئی ان تینوں میں سے کسی کو گرفتار کر کے لائے گا میں اسے اپنے خاص عہدے داروں میں شامل کرلوں گااوراسے گورنر بناؤں گا۔” جب رومیوں نے یہ اعلان سنا تو روم کے بڑے بڑے بہادروں نے ان تین نوجوانوں کو قید کرنے کا ارادہ کیا اور بہت سے لوگ ان جاں نثاروں کو قید کرنے کے لئے میدانِ کارزار کی طر ف گئے ۔
دوسرے دن دونوں فوجوں میں گھمسان کی جنگ جاری تھی ۔ یہ تینوں بھائی سب میں نمایاں تھے جس طرف رخ کرتے رومیوں کی شامت آجاتی۔ ان کی گردنیں تن سے جدا ہو کر گر پڑتیں۔جب لالچی رومیوں نے دیکھا کہ یہ تینوں نوجوان اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مصروفِ جنگ ہیں توبہت سے رومیوں نے مل کر پیچھے سے ان تینوں بھائیوں کو گھیرے میں لے لیا اورپھندا ڈال کر ان شیروں کو قید کر کے بادشا ہِ روم کے دربار میں لے گئے ۔ جب بادشاہ نے ان تینوں مجاہدوں کو دیکھاتو کہنے لگا: ”ان سے بڑھ کر نہ تو ہمارے لئے کوئی مالِ غنیمت ہے اورنہ ہی ان کی گرفتاری سے بڑھ کر کوئی فتح ۔”
پھر ان تینوں مجاہدین کو ”قسطنطنیہ ”لے جایا گیا اوربادشاہ نے ان کو اپنے دربار میں بلا کرکہا: ”تمہاری بہادری قابلِ تعریف ہے لیکن تم نے ہمارے خلاف جنگ کی جرأ ت کی لہٰذا تمہاری سزا موت کے سواکچھ نہیں۔ ہاں! اگرتم اپنے دینِ اسلام کو چھوڑ کر نصرانی ہوجاؤ تو ہم تمہاری جان بخشی کردیں گے۔ تمہیں شاہی دربار میں اعلیٰ مقام دیا جائے گا اورمیں اپنی شہزادیوں کی تم سے شادی کردوں گا۔بس تم دین اسلام کو چھوڑ کر ہمارا دینِ(عیسوی)قبول کرلو۔” بادشاہ کی یہ بات سن کر اسلام کے ان عظیم مجاہدوں نے بہت جرأ ت مندی کا مظاہرہ کیا اوربڑی بے خوفی اوربہادری سے جواب دیا :”ہم اپنے دین کوکبھی بھی نہیں چھوڑ سکتے اس دین کی خاطر سر کٹانا ہمارے لئے بہت بڑی سعادت ہے۔تم ہمارے ساتھ جو چاہے کرو ان شاء اللہ عزوجل ہمارے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آئے گا۔” یہ کہہ کر تینوں بھائی بیک وقت شاہ ِروم کے دربار میں کھڑے ہوکر اپنے پیارے نبی ، دو عالَم کے والی، سلطان دوجہاں ، رحمت عالمیاں، نبی آخرالزماں، محمد مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں استغاثہ کرتے ہوئے ”یا محمداہ ! یا محمداہ ! یا محمداہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!”کی صدائیں بلند کرنے لگے ۔
جب بادشاہ نے یہ دیکھا تو پوچھا: ”یہ کیا کہہ رہے ہیں؟”لوگوں نے بتایا:” یہ اپنے نبی، محمد( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی بارگاہ میں استغاثہ کر رہے ہیں ۔
اس بد بخت بادشاہ کو بہت غصہ آیاکہ انہیں اپنے نبی سے اتنی محبت ہے کہ اپنی جان کی پرواہ تک نہیں بلکہ ایسی حالت میں بھی ان کی توجہ اپنے نبی کی طرف ہے پھراس بدبخت بادشاہ نے ان مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”کان کھول کر سن لو!اگر تم
نے میری بات نہ مانی اوردین عیسوی قبول نہ کیا تو میں تمہیں ایسی درد ناک سزادوں گا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ابھی موقع ہے کہ تم میری پیشکش قبول کرلو اور خوب عیش وعشرت کی زندگی گزار و۔ ” ان عاشقانِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی بہادری سے جواب دیا :” ہم ایسی عیش وعشرت بھری زندگی پر لعنت بھیجتے ہیں جو ہمیں اسلام کی عظیم دولت سے محروم کردے۔ تم لاکھ کوشش کرلو لیکن ہمارے دلوں میں اسلام کی جو شمع روشن ہے تم اسے کبھی بھی نہیں بجھا سکتے، ہمارے دلوں میں ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی جو محبت ہے تم اسے ہمارے دلوں سے کبھی بھی نہیں نکال سکتے۔ ہم اللہ عزوجل کی وحدانیت کے کبھی بھی منکر نہ ہوں گے ۔ ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں، تمہیں جو کرنا ہے کرلو۔
؎ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
بادشاہ کو بہت غصہ آیا اوراس نے اپنے جلاّدوں کو حکم دیا کہ تین بڑی بڑی دیگوں میں تیل ڈال کر ان کے نیچے آگ جلا دو۔ جب تیل خوب گرم ہوجائے اورکھولنے لگے تو مجھے اطلاع کردینا ۔ جلاد حکم پاتے ہی دوڑے اورتین دیگوں میں تیل ڈال کر ان کے نیچے آگ لگادی۔ مسلسل تین دن تک وہ دیگیں آگ پر رکھی رہیں۔ ان مجاہدین کو روزانہ نصرانیت کی دعوت دی جاتی اور لالچ دیا جاتا کہ تمہیں شاہی عہدہ بھی دیا جائے گااور شاہی خاندان میں تمہاری شادی بھی کرادی جائے گی لیکن ان کے قدم بالکل نہ ڈگمگائے ۔ چوتھے دن بادشاہ نے پھر انہیں لالچ اوردھمکی دی لیکن وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ اب بادشاہ کو بہت غصہ آیااورا س نے سب سے بڑے بھائی کو مخاطب کر کے کہا:” اگر تو نے میری بات نہ مانی تو تجھے اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دوں گا۔” مگراس عاشقِ رسول، جرأت مندمجاہد پربادشاہ کی دھمکی کا کچھ اثر نہ ہوا۔بادشاہ نے جلادوں کوحکم دیا کہ اسے اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا جائے۔ حکم پاتے ہی جلاد آگے بڑھے اور انہوں نے اس مرد ِحق کو ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا۔ آن کی آن میں اس راہِ خدا عزوجل کے عظیم مجاہد کا سارا گوشت جل گیا اورتیل میں اس کی ہڈیاں نظر آنے لگیں۔ بظاہر تو یہ نظر آرہا تھا کہ اس کا گوشت جل گیا لیکن در حقیقت اس مجاہد نے اس گرم تیل میں غوطہ لگایا اورجنت کی نہروں میں پہنچ گیا اور اسے دائمی حیات کی دولت نصیب ہوگئی اور اس کی جامِ شہادت نوش کر نے کی خواہش پوری ہوگئی۔
پھر بادشاہ نے اس سے چھوٹے بھائی کو بلایا اوراسے بھی لالچ اوردھمکیاں دیں اورکہا:” اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تمہارا حشر بھی تمہارے بھائی جیسا ہی ہوگا۔” اس مردِ مجاہدنے جواب دیا:”ہم تو کب سے جامِ شہادت نوش کرنے کے لئے بےتاب ہیں۔ ہمیں نہ تودولت وشہرت چاہے اورنہ ہی ملک وحکومت بلکہ ہمارامطلوب تو راہ خدا عزوجل میں جان دے دینا ہے ۔ ہمیں موت تو بخوشی قبول ہے لیکن دین اسلام سے انحراف نا ممکن۔
بالآخر اس مجاہد کی دلیرانہ گفتگو سن کر بادشاہ نے حکم دیا:” اسے بھی اس کے بھائی کے پاس پہنچا دو۔ حکم پاتے ہی ظالم جلّاد آگے بڑھے اوراس عظیم مجاہد کوبھی اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا اوراس کی روح بھی عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی، اس کا خواب بھی شرمندہ تعیبر ہوگیا کیونکہ اس کی جان رائیگاں نہ گئی بلکہ دین اسلام کی سربلندی اوراللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اس نے جامِ شہادت نوش کیا۔ بہر حال جب بادشاہ نے ان مجاہدین کا صبرو استقلال ،بے خوفی وجرأت مندی اوردین اسلام پر استقامت دیکھی تو اسے اپنے اس فعل پر بڑی ندامت ہوئی اور کہنے لگا :” مسلمانوں سے زیادہ بہادر اورعظیم قوم میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ پھر بادشاہ سب سے چھوٹے مجاہد کی طرف متوجہ ہوا جس کا چہرہ عبادت وریاضت کے نور سے چمک رہا تھا اور وہ بالکل وقار واطمینان سے کھڑا تھا۔بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلایا، اسے خوب لالچ دیااورہر طرح کے حیلے استعمال کرلئے کہ کسی طرح یہ اپنے دین سے منحرف ہوجائے لیکن بادشاہ کی کوئی تدیبر بھی اس نوجوان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکی ۔ بادشاہ کو پھر غصہ آنے لگا وہ اس مجاہد کے خلاف بھی کچھ فیصلہ کرنا چاہتاتھا کہ ایک گورنر اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا :”بادشاہ سلامت !اگر میں اس نوجوان کو دین اسلام سے منحرف کردوں تو مجھے کیا انعام ملے گا؟ بادشاہ نے کہا :”میں تجھے مزید ترقی دے دوں گا اورتجھے خوب انعام واکرام سے نوازا جائے گامگر یہ تو بتاؤ کہ تم ا س نوجوان کو کس طرح بہکاؤ گے۔ جب یہ موت سے بھی نہیں ڈرتا تو پھر ایسی کون سی چیز ہے جو اس مجاہد کو اس کے دین سے پھسلا دے گی؟” وہ بے غیرت گورنر بادشاہ کے قریب گیا اورسر گوشی کرتے ہوئے کہنے لگا: ”بادشاہ سلامت! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ عرب لوگ حسین عورتوں کے بہت شیدائی ہوتے ہیں اوران کی طرف بہت جلد مائل ہوجاتے ہیں۔ بادشاہ سلامت !پورے روم میں کوئی لڑکی میری بیٹی سے زیادہ حسین نہیں ۔ یہ آ پ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میری بیٹی کے حسن وجمال کے چرچے پورے روم میں ہورہے ہیں۔ آپ اس نوجوان کو میرے حوالے کردیں میں اسے اپنے گھر لے جاؤں گا۔مجھے امید ہے کہ میری بیٹی اسے ضروراپنے حسن وجمال کے ذریعے گھائل کردے گی اوریہ اپنے دین سے ضرور منحرف ہو جائے گا۔ ”
بادشاہ نے کہا:” ٹھیک ہے ،میں تمہیں چالیس دن کی مدت دیتاہوں اگر تم اسے عیسائی بنانے میں کامیاب ہوگئے تو تمہیں اتنا بڑا انعام دیا جائے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔”
چنانچہ وہ بے غیرت گورنرجو ملک ودولت کے لالچ میں اپنی بیٹی کی عزت کا سود اکر نے کے لئے تیارہو گیا تھا،اس عظیم نوجوان کولے کر اپنے گھر کی جانب چل دیا۔ گھر جاکر گورنر نے اس نوجوان کو اپنے گھر کے سب سے اچھے کمرے میں رہائش دی اوراپنی بیٹی کو سارا واقعہ بتایا۔ اس کی بیٹی نے کہا: ”اباجان! آ پ بے فکرہوجائیں ،میں اس نوجوان کے لئے کافی ہوں ، میں چند
ہی دنوں میں اسے اپنے دامِ محبت میں پھنسا لوں گی۔” چنانچہ گورنرنے اپنی بیٹی کو اس نوجوان کے پاس بھیج دیا۔وہ حسین دوشیزہ روزانہ اپنے حسن وجمال کا جال ڈال کر اس شرم وحیا کے پیکر عظیم مجاہد نوجوان کو پھنسانا چاہتی لیکن صد ہزار آفرین اس نوجوان کی پاکدامنی اور شرم وحیاء پر! اس نے کبھی بھی نظر اٹھا کر اس فتنے باز حسینہ کو نہ دیکھا جس کی ایک جھلک دیکھنے کو روم کے ہزاروں رومیوں کی نگاہیں ترستی تھیں ۔بس یہ سب دینِ اسلام کا فیضان تھا اوراس نوجوان پر نبی کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نظر کرم تھی کہ جن کی نگاہیں ہر وقت حیا سے جھکی رہتی تھیں۔
؎ نیچی نظروں کی شرم وحیاء پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
الغرض! اس لڑکی نے اسلام کے اس مجاہد کو بہکانے کی خوب کوشش کی لیکن وہ سارا دن نماز پڑھتا رہتا ۔ اسی طرح پوری رات تلاوت کرتے کرتے اورقیام وسجود میں گزرجاتی ۔ اس نوجوان نے کبھی بھی لڑکی کی طرف نہ دیکھا،بس ہر وقت یا دِالٰہی عزوجل میں مگن رہتا ۔ اسی طرح کافی دن گزرگئے۔مقررہ مدت ختم ہونے والی تھی۔ بادشاہ نے اس گورنر کو بلوایااورپوچھا:” اس نوجوان کا کیا حال ہے؟ کیااس نے دین اسلام چھوڑ دیا ہے ؟”گورنر نے کہا :” میں نے اپنی بیٹی کو اسی کام پرلگایا ہوا ہے،میں اس سے معلوم کر لیتاہوں کہ اسے کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ہے ؟”
گورنر اپنی بیٹی کے پاس آیا اورپوچھا :”بیٹی! اس نوجوان کا کیا حال ہے ؟” لڑکی نے جواب دیا : ”ابّا جان !یہ تو ہر وقت گُم سُم رہتاہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں اس کے دوبھائیوں کو ماردیا گیا ہے ،یہ ان کی یاد میں غمگین رہتا ہے اورمیری طرف بالکل متوجّہ نہیں ہوتا ۔اگر ایسا ہوجائے کہ ہمیں اس شہر سے کسی دو سرے شہر میں منتقل کردیا جائے اوربادشاہ سے مزید کچھ دنوں کی مہلت لے لی جائے، نئے شہر میں جانے سے اس نوجوان کا غم کم ہوجائے گا۔،پھر میں اسے ضرور اپنی طرف مائل کرلوں گی۔
اپنی بیٹی کی یہ بات سن کر وہ بے غیرت گورنر بادشاہ کے پاس گیا اور اسے ساری صورت حال بتا کر مدت میں طوالت اوران دونوں کے لئے کسی دوسرے شہر میں رہائش کے انتظام کا مطالبہ کیا۔ باد شاہ نے دونوں باتیں منظور کرلیں ۔ ان دونوں کو ایک دوسرے شہر میں بھیج دیااو ر کچھ دنوں کی مزیدمہلت دے دی۔ اب ایک ہی کمرے میں ایک حسین وجمیل دوشیزہ اوریہ متقی وپرہیزگار نوجوان ایک ساتھ رہنے لگے ۔وہ لڑکی روزانہ نئے نئے انداز سے بناؤ سنگھار کر کے نوجوان کو مائل کرنے کی کوشش کرتی لیکن اللہ عزوجل کا وہ نیک بندہ نماز وتلاوت میں مشغول رہتا، اس کی راتیں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آہ و زاری اورنیاز مندی میں گزر
جاتیں ۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا مقررہ مدت ختم ہونے میں صرف تین دن باقی تھے ۔ اس لڑکی نے جب دیکھاکہ گناہ کے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود یہ عظیم نوجوان اپنے رب عزوجل کے خوف سے اوراپنے دین اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے لئے میری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اوراپنے پروردگار عزوجل کی محبت میں مگن رہتاہے تو وہ لڑکی اس عظیم مجاہد سے بہت متاثر ہوئی اور دینِ اسلام کی عظمت اس کے دل میں بیٹھ گئی۔
چنانچہ ایک رات وہ اس نوجوان کے پا س آئی اورکہنے لگی: ”اے شرم وحیاکے پیکرعظیم و پاک دامن نوجوان! میں تمہاری عبادت وریاضت اورپاکدامنی سے بہت متاثر ہوئی ہوں اوراب میں تمہارے دین سے محبت کرنے لگی ہوں کہ جس کی تعلیمات ہی ایسی ہیں کہ کسی غیر عورت کو نہ دیکھا جائے تو جس دین میں ایسے اچھے اچھے احکامات ہوں یقینا وہی دین حق ہے ۔ میں آج اور ابھی عیسائیت سے توبہ کرتی ہوں اورتمہارے دین میں داخل ہوتی ہوں۔ مجھے کلمہ پڑھاکر اپنے دین میں داخل کرلیجئے ۔ پھراس لڑکی نے سچے دل سے عیسائیت سے توبہ کی اورکلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئی ۔
اب نوجوان نے اس لڑکی سے کہا :” ہمیں اس ملک سے نکل جانا چاہے ورنہ جیسے ہی تمہارے اسلام کی خبر بادشاہ کو پہنچے گی وہ تمہاری جان کا دشمن ہوجائے گا۔ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہم اس ملک سے دور چلے جائیں ؟” اس لڑکی نے کہا :”آپ بے فکر رہیں، میں آج رات ہی ساراانتظام کرلوں گی۔ آ پ تیار رہنا ہم آج رات ہی یہاں سے اسلامی ملک کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔”جب رات نے اپنے پر پھیلائے تو نوجوان بالکل تیار تھا کیونکہ آج رات اسے اپنے ملک کی طرف روانہ ہونا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکی آئی اورکہنے لگی:” جلدی چلئے! باہر ہمارے لئے دو گھوڑے تیارہیں ،ہمیں فوراً یہاں سے نکلنا ہے۔ ” نوجوان کے ترغیب دلانے پر گورنر کی اس لڑکی نے جو مسلمان ہوچکی تھی، اپنے آپ کو سر سے لے کر پاؤں تک چادر میں چھپایا اورنوجوان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔دونوں گھوڑوں پر سوار ہوئے اوراسلامی سرحد کی طرف بڑھنے لگے۔
وہ مجاہدآگے آگے یاد الٰہی عزوجل میں مصروف ،بڑی تیز رفتاری سے جانب منزل بڑھتا جارہا تھا ۔پیچھے یہ نو مسلم لڑکی تھی۔ چلتے چلتے جب کافی رات بِیت گئی تو ایک مقام پر انہیں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی ۔ آواز سن کر وہ نو مسلم لڑکی گھبرا گئی۔ اس نے سمجھا شاید دشمن ہمارے تعاقب میں آرہے ہیں ،وہ کہنے لگی:” اے نیک سیرت نوجوان! اس پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں دعاکرو جس پر ہم ایمان لائے ہیں کہ وہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے چھٹکارا عطافرمادے ۔
ابھی لڑکی یہ بات کہہ ہی رہی تھی کہ چند شہسوار ان کے قریب آگئے۔انہیں دیکھ کر یہ دونوں بہت حیران ہوئے کیونکہ آنے والے شہسوار اس نوجوان کے بھائی تھے اوران کے ساتھ چند اورنورانی چہروں والے شہسوار بھی تھے ۔ جب نوجوان نے
اپنے بھائیوں کو دیکھاتوفرطِ محبت سے ان کی طرف لپکا،انہیں سلام کیااورپوچھا:”اے میرے بھائیو!تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟”انہوں نے جواب دیا :”جب ہمیں اُبلتے ہوئے تیل میں غوطہ دیا گیا تو ہم سیدھے جنت الفردوس میں جاکر نکلے اوراللہ عزوجل نے ہمیں اپنا قرب خاص عطافرمایا ۔ اب اللہ عزوجل نے ہمیں تمہاری طرف بھیجا ہے اور ہمارے ساتھ ملائکہ کی ایک جماعت بھی آئی ہے ۔ ہمیں حکم ہوا ہے کہ تیری شادی اس نو مسلم خوش قسمت لڑکی سے کروادیں ۔ ہم تمہاری شادی کرانے آئے ہیں۔ چنانچہ فرشتوں کی نورانی بارات کی موجودگی میں اس عظیم نوجوان اور خوش قسمت نو مسلم لڑکی کا نکاح کر دیاگیا ۔پھر وہ دونوں بھائی ملائکہ کی جماعت کے ساتھ ایک سمت روانہ ہوگئے ۔
دولہا اور دلہن حسرت بھری نگاہوں سے اس نورانی قافلے کو دیکھتے رہے۔ جب یہ قافلہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو انہوں نے بھی ملک شام کی طرف کوچ کیا۔ ملک شام پہنچ کر انہوں نے وہیں مستقل رہائش اختیار کرلی ۔ لوگوں میں ان کا واقعہ بہت مشہور ہوچکا تھا اور پورے شام میں اس نوجوان کی پاکدامنی، اس کے بھائیوں کی شجاعت و بہادری ،اس نیک سیرت نو مسلم لڑکی کی قربانی اوراس کی دینِ اسلام سے محبت کے چرچے ہونے لگے اورآج تک ان کا واقعہ لوگوں میں مشہور ہے۔
پھر کسی شاعر نے ان خوش نصیب عظیم میاں بیوی کے بارے میں چند اشعار کہے، جن میں سے ایک شعر یہ بھی تھا :
؎ سَیُعْطٰی الصَّادِقِیْنَ بِفَضْلِ صِدْقٍ نَجَاۃٌ فِی الْحَیِاۃِ وَ فِی الْمَمَاتِ
ترجمہ:عنقریب صادقین کو ان کے صدق کے سبب دنیا اور آخرت میں نجات دی جائے گی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم
ٍٍ ( شیخ طریقت ،امیرِاہلِسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارؔ قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالہ” حسینی دولہا” میں یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:” میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے!ان تینوں شامی بھائیوں نے ایمان پر استقامت کا کیسازبردست مظاہرہ کیا، ان کے دلوں میں ایمان کس قدرراسخ ہو چکا تھا، یہ عشق کے صرف بلندبانگ دعوے کرنے والے نہیں حقیقی معنیٰ میں مخلص عاشقانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تھے۔ دونوں بھائی جام شہادت نوش کر کے جنت الفردوس کی سرمدی نعمتوں کے حقدار بن گئے اور تیسرے نے روم کی حسینہ کی طرف دیکھا تک نہیں اور دن رات ربّ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہا اور یوں جو بہ نیت شکار آئی تھی خود اسیر بن کررہ گئی! ا س حکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشکلات میں سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے مدد چاہنا اور یا رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پکارنااہلِ حق کاقدیم طریقہ رہا ہے۔
؎ یا رسول اللہ کے نعرے سے ہم کو پیار ہے
ان شاء اللہ عزوجل دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
اُس شامی نوجوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عزم و استِقلال اوراس کی ایمان پر استِقامت مرحبا! ذراغور تو فرمایئے! نگاہوں کے سامنے دو پیارے پیارے بھائی جامِ شہادت نوش کر گئے مگر اس کے پائے ثَبات کو ذرا بھی لغزِش نہیں آئی نہ دھمکیاں ڈرا سکیں نہ ہی قید و بند کی صُعُوبتیں اسے اپنے عزم سے ہٹاسکیں۔ حق و صداقت کا حامی مصیبتوں کی کالی کالی گھٹاؤں سے بالکل نہ گھبرایا۔ طوفانِ بلا کے سیلاب سے اس کے پائے ثَبات میں جُنبش تک نہ ہوئی ۔ خداو مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلَّم کا شیدائی دنیا کی آفتوں کو بالکل خاطر میں نہ لایا۔ بلکہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں پہنچنے والی ہر مصیبت کا اس نے خوش دلی کے ساتھ خیر مقدم کیا، نیز دنیا کے مال اور حُسن وجمال کالالچ بھی اس کے عزائم سے اس کو نہ ہٹا سکا اور اس مردِ غازی نے اسلام کی خاطر ہر طرح کی راحتِ دنیا کے منہ پر ٹھوکر مار دی۔
؎ یہ غازی یہ تیرے پر اَسرار بندے جنہیں تو نے بَخشاہے ذوقِ خدائی
ہے ٹھوکر سے دو نِیم صحرا و دریا سِمَٹ کر پہاڑ ان کی ہیبَت سے رائی
آخرکار اللہ عزوجل نے رہائی کے بھی خوب اسباب فرمائے ۔وہ رومی لڑکی مسلمان ہو گئی اور دونوں رِشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔” (حسینی دولہا،ص۲۱تا۲۳)
(اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل !ہمیں بھی شوقِ شہادت کے جذبے میں اخلاص واستقامت عطافرما۔ دین کی خاطر اپنا تن، من، دَھن سب کچھ قربان کرنے کی عظیم سعادت عطافرما۔ دین اسلام کی سربلندی کے لئے ہمیں خوب خوب تگ ودو کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔ اے ہمارے مولیٰ عزوجل !ہمیں بھی دین اسلام پر ثابت قدم رکھ ۔ایمان وعافیت کے ساتھ سرکار مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ ،صاحبِ معطّرپسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلوؤں میں شہادت کی موت عطافرما۔ ہمیں اپنی راہ میں سرکٹانے کی توفیق عطافرما۔ ان عظیم مجاہدوں کے صَدْقے بدنگاہی ، گندی سوچ اورگندے افعال سے ہماری حفاظت فرما۔ سرکار مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی جھکی جھکی باحیا آنکھوں کا واسطہ ہمیں بھی شرم وحیا سے ہر وقت نگاہیں نیچی رکھنے کی توفیق عطافرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ یاالٰہی عزوجل رنگ لائیں جب میری بے باکیاں
ان کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو