تاریخ وتدوین حدیث

تاریخ وتدوین حدیث

فنِ حدیث کے محاسن و فضائل اور اس کے متعلقات اور موجبات پر قلم اٹھانے سے پہلے یہ بتادینا نہایت ضروری ہے کہ عہدِ صحابہ سے لے کر آج تک حدیثوں کی تدوین اور جمع و ترتیب کا کام کیونکر عمل میں آیا ؟
اس اجمال کی شرح یہ ہے کہ سر کارِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عہد پر نور جو نزولِ قرآن کا زمانہ ہے ۔ اس عہد پاک میں چونکہ آیاتِ قرآنی کے تحفظ کا کام سب سے اہم تھا اس لیے حضور پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام کو تاکید فرمائی کہ وہ صرف آیات ِقرآنی کو قلمبند کیا کریں۔ احادیث کو قیدِ تحریر میں نہ لائیں تاکہ آیات ِ قرآنی کے ساتھ کسی طرح کا التباس نہ ہو۔ البتہ اس امر کی اجازت تھی کہ زبانی طور پر احادیث کی روایت و نقل میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ حضرت امام مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ناقل ہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِن الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَا تَکْتُبُوْا عَنِّی وَمَنْ کَتَبَ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ وَحَدِّثُوا عَنِّی وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِن
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ کوئی شخص میری حدیث نہ لکھے اور جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو اس کو مٹا دے ۔ اور میر ی حدیثیں زبانی بیان کرے ۔ کوئی حرج نہیں اور جس نے میری طرف کوئی جھوٹ بات منسوب النَّارِ‘‘۔ (1) (مسلم شریف)
کی تو اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم بنائے ۔
لیکن اسی کے ساتھ بعض وہ صحابہ جنہیں اپنے اوپر اعتماد تھا کہ وہ قرآنی آیات کے ساتھ احادیث کو مخلوط نہیں ہونے دیں گے وہ اپنے طور پرحدیثوں کو بھی قلمبند کرلیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت امام بخاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے نقل کیا ہے :

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَا بِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ أَکْثَر حَدِیْثاً عَنْہُ مِنِّی اِلاَّ مَاکَانَ مِنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَمْرٍو فَإِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَأَنَا لَا أَکْتُبُ‘‘۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کے صحابہ میں کوئی مجھ سے زیادہ حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا مگر عبداللہ بن عمرو۔ کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔ (بخاری )
جب کاغذ کے ٹکڑوں، ہرن کی جھلیوں ، کھجور کے پتوں اور الواحِ قلوب میں بکھری ہوئی قرآن مجید کی آیتیں عہدِ فاروقی سے لے کر عہدِ عثمان تک کتابی شکل میں ایک جگہ جمع کردی گئیں ا ور ساری دنیا میں اس کے نسخے پھیلا دیئے گئے اور احادیث کے ساتھ آیات ِ قرآنی کے التباس و اختلاط کا کوئی اندیشہ نہیں رہ گیا۔ تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ خلافت میں ان کے ایما پر احادیث کی تدوین اور تصنیف و کتابت کا کام باضابطہ شروع ہوا۔
جیسا کہ حضرت امام سیوطی علیہ الرحمۃ کی ’’ الفیہ‘‘ کی شرح میں مقدمہ نویس نے لکھا ہے ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
’’ فَلَمَّا أَفْضَتِ الْخِلَافَۃُ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ فِی عَام ۹۹ تِسْعِ وَّ تِسْعِیْنَ مِنَ الْہِجْرَۃِ کَتَبَ إِلَی أَبِی بَکرِ بْنِ حَزم وَھُوَ شَیْخُ مُعَمَّرٍوَاللَّیْثِ وَالْأَوْزَاعِی وَمَالِک وَابْنِ اِسْحٰق وَابْنِ أَبِی ذئبٍ وَھُوَ نَائِبُ عُمَرِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِ فِی الْقَضَائِ عَلَی
۹۹ھ؁ میں جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو آپ نے ابوبکر بن حزم کو لکھا جو معمر، لیث ، اوزاعی ، مالک ، ابن اسحاق اور ابن ابوذئب کے شیخ تھے ۔ اور مدینۂ منورہ میں محکمہ قضا میں خلیفہ کے نائب تھے ان سے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ جو حدیث
الْمَدِیْنَۃِ یَقُوْلُ لَہُ أنْظُرْ مَا کَانَ مِنْ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَاکْتُبْہُ فَإِنِّی خِفْتُ دُرُوْسَ الْعِلْمِ وَذَھَابَ الْعُلَمَائِ‘‘۔ (2)
بھی حضور کی ملے اسے لکھ لو اس لیے کہ مجھ کو علم کے مٹنے اور علماء کے چلے جانے کا خوف ہے ۔ (مقدمہ شرح الفیہ ص ۵)
اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق یہاں تک نقل کیا گیا ہے :

’’ أَنَّہُ کَتَبَ إِلَی أَھْلِ الْأَفَاقِ اُنْظُرُوْا إِلَی حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَاجْمَعُوْہُ‘‘۔ (1)
انہوںنے اطراف وجوانب میں لکھا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کوئی حدیث پائو توا سے جمع کرلو۔ (تاریخ اصفہان لابی النعیم)
حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تحریک پر فنِ حدیث میں سب سے پہلی کتاب حضرت ابن حزم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تصنیف فرمائی۔ اس کے بعد حدیث کی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور جمع و ترتیب کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا، مختلف شہروں میں مختلف بزرگوںنے حدیث میں بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں۔
صاحب ِ ’’شرح الفیہ‘‘ نے نہایت تفصیل کے ساتھ بقید مقام ان بزرگوں کے نام لکھے ہیں:
’’ مِنْھُمْ ابْنُ جُرَیْج بِمَکَّۃَ وَابْنُ اِسْحَاق وَمَالِکٌ بِالْمَدِیْنَۃِ وَالرَّبِیْعُ بْن صبیحٍ وَسَعِیْدُ بْنُ عُرْوَۃَ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ بِالْبَصْرَۃِ وَسُفْیانُ الثَّوْریُّ بِالْکُوفَۃ وَالْأَوْزَاعِی بِالشَّامِ وَھِشَامٌ بِوَاسِط وَمَعمَر بِالْیَمَن وَجَرِیْرُ بْنُ عَبْدِاللَّہ بِالری وَابْنُ الْمُبَارَ ک بِخُرَاسَان‘‘۔ (2)
ان میں ابن جریح مکہ میں ابن اسحاق اور مالک مدینہ میں، ر بیع بن صبیح، سعید بن عروہ اور حماد بن سلمہ بصرہ میں ، سفیان ثوری کوفہ میں، اوزاعی شام میں، ہشام واسط میں معمر یمن میں، جریر بن عبداللہ رے میں اور ابن المبار ک خر اسان میں تھے ۔ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین (مقدمہ شرح الفیہ ص ۵)
اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’ کُلُّھُمْ فِی عَصْرٍ وَاحِدٍ وَمِنْ طَبقَۃٍ وَاحِدَۃٍ
یہ سب کے سب ایک ہی زمانہ میں ایک ہی طبقہ کے
وَأَکْثَرُھُمْ مِنْ تَلامِذَۃِ أَبِی بَکر بْن حَزم وَابن شِہَاب الزّھری‘‘۔ (3) (مقدمہ شرح الفیہ ص۹)
تھے اور ان میں کے اکثر حضر ت ابوبکر بن حزم اور ابن شہاب زہری کے شاگرد تھے ۔

اس کے بعد تصنیف و تالیف اور مختلف حلقہائے در س کے ذر یعہ احادیث کی نشرو اشاعت کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا، ر وایتوں کے قبول و رد کے اصول ، راویوں کے اوصاف وشرائط اور اس فن کے آداب و لوازم پر ضوابط ودساتیرکی تشکیل عمل میں آئی اور اصولِ حدیث کے نام سے علم و فکر کی دنیا میں ایک نئے فن کا آغاز ہوا۔ اصول وشرائط کے سخت سے سخت معیار پر احادیث کی نئی نئی کتابیں لکھی گئی یہاں تک کہ آج اس فن کی جملہ تصنیفات میں صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، جامع ترمذی، سنن ابودائود ، سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی بہت مشہور اور متداول بین الناس ہیں۔
سطورِ بالا میں حدیث کی دینی ضرورت، اس کی علمی اور فنی ثقاہت اور اس کی تاریخی عظمت و انفرادیت پر کافی روشنی پڑچکی ہے ۔ جن پاک طینت مسلمانوں کو اسلام و قر آن عزیز ہے اور جو اپنے آپ کو اسی امت مسلمہ کا ایک فرد سمجھتے ہیں جو چودہ سو برس سے اپنی متوارث روایات اور مربوط دینی و فکری تہذیب کے ساتھ زندہ و تابندہ ہے تو انہیں حدیث پر اعتماد کرنے کے لیے کسی دلیل کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ۔
البتہ جو لوگ کہ ازراہِ نفاق حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اپنی اس شقاوت کو چھپانے کے لیے قر آن کا نام لیتے ہیں۔ اگر مجھے وقت کی تنگی کا عذر نہ پیش آجاتا تو میں قابلِ وثوق شہادتوں کے ساتھ آفتابِ نیم روز کی طرح یہ ثابت کردکھاتا کہ ان کے یہاں حدیث کا انکار قرآن کی پیروی کے جذبے میں نہیں بلکہ قر آن کی پیروی سے بچنے کے لیے ہے ۔
حدیث کے انکار سے ان کا اصل مدعا یہ ہے کہ کلام خداوندی کے مفہوم کا یقین ان کی ذاتی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے تاکہ آیات ِ الہٰی کا مفہوم مسخ کرکے بھی وہ قرآن کی پیروی کا دعویٰ کرسکیں۔ دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ منکرینِ حدیث کے فتنے سے اہلِ ایمان کو محفوظ رکھے اور انہیں توفیق دے کہ وہ حدیث کی روشنی پھیلا کر عالم کا اندھیرا دور کریں۔
وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَحِزْبِہٖ أَجْمَعِیْنَ
ارشدالقادری( عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی )
مہتمم مدرسہ فیض العلوم ، جمشید پور ( بہار)۱۵ ر مضان المبارک ۱۳۹۱؁ ھ

________________________________
1 – ’’صحیح مسلم ‘‘، کتاب الزھدوالرقائق ، الحدیث: ۷۲۔ (۳۰۰۴) ص۱۶۰۰.

________________________________
1 – ’’صحیح البخاری‘‘، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم، الحدیث: ۱۱۳، ج۱، ص ۵۸.
2 – ’’مقدمہ شرح الفیہ‘‘، ص۵.

________________________________
1 – ’’تدریب الراوی‘‘، ص ۵۰.
2 – ’’مقدمہ شرح الفیہ‘‘، ص۵.
3 – ’’مقدمہ شرح الفیہ‘‘، ص۹.

Exit mobile version