حکایت نمبر:322 تقویٰ ہو تو ایسا ہو۔۔۔۔۔۔!
حضرتِ سیِّدُنا ابوبَکْراَحْنَف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ” میں نے عبداللہ بن احمد بن حَنْبَل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا:” ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا بِشْر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی ہمشیرہ حضرت سیِّدَتُنا ”مُخَّہ” رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا میرے والد کے پاس
آئیں او رپوچھا: میرے پاس دو دانق(یعنی درہم کاچھٹا حصہ) تھے میں نے ان کا اون خرید کر کا تا اور نصف درہم کا بیچ دیا۔ میرا کھانے پینے کا پورے ہفتے کا خرچ ایک دانق ہے۔ ہوا یوں کہ حاکم شہر ابن طاہر ہمارے گھر کے قریب سے گزرا اس کے ساتھ مشعلیں بھی تھیں۔ ہمارے گھر کے قریب کھڑا ہو کر وہ چند کا رندوں سے گفتگو کرنے لگا ۔ میں نے ان مشعلوں کی روشنی میں کچھ اون کا ت لیا تھا۔ جب حاکم وہاں سے چلا گیا تومیرے دل میں یہ خیال آیا کہ ”حاکمِ شہر کی مشعلوں کی روشنی میں کاتی ہوئی اُون کا حساب دینا ہو گا۔” بس اس خیال کے آتے ہی میں پریشان ہوگئی، اب آپ کے پاس اپنا مسئلہ لے کر آئی ہوں مجھے اس پریشانی سے نجات دلائیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی پریشانی دور فرمائے۔ مجھے بتائیں کہ اب میں اس اون کی قیمت کا کیا کرو ں ۔” میرے والد ِ محترم نے فرمایا: ”تم دودانق رکھ لو اور نفع چھوڑ دو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس نفع کے بدلے تمہیں اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔ یہ سن کر وہ چلی گئی۔”
میں نے اپنے والد ِ محترم سے کہا:” حضور! اگر آپ اسے یہ کہہ دیتے کہ اس روشنی میں جتنا اون کاتا وہ علیحدہ کرلو، باقی اُون تمہارے لئے جائز ہے تو کیا حرج تھا۔” فرمایا:” بیٹے! اس خاتون کا سوال اس تاویل کا احتمال نہیں رکھتا تھا۔ پھر فرمایا: ”تم جانتے ہو، وہ کون تھی؟” میں نے کہا: ”ہاں! وہ زمانے کے مشہور ولی حضرتِ سیِّدُنا بِشْرِ حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی ہمشیرہ ” مُخَّہ” تھی۔” فرمایا:” جبھی تو وہ یہ مسئلہ پوچھنے آئی تھی ۔ واقعی ایسی عظمت وشان والی عورت بِشْر جیسے ولی کی بہن ہی ہو سکتی ہے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)