تقدیر کا بیان

تقدیر کا بیان

(۱)’عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَمَرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ اللَّہُ مَقَادِیْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقَ السَّمَوَتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ۔ (1)
حضرت عبداللہ بن عمر و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس قبل مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا ( لوحِ محفوظ میں ثبت فرمادیا)۔ (مسلم ، مشکوۃ)
(۲)’’عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّہُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَہُ أُکْتُبْ قَالَ مَا أَکْتُبُ؟ قَالَ أُکْتُبِ الْقَدَرَ فَکَتَبَ مَا کَانَ وَمَا ھُوَ کَائِنٌ إِلَی الْأَبَدِ۔ (2)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سر کارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ (حقیقت محمدیہ علی صاحبہاالصلوۃوالتحیۃکے بعد) سب سے پہلے جو چیز خدا نے پیدا کی وہ قلم ہے ۔ خدائے تعالیٰ نے اس سے فرمایا لکھ۔ قلم نے عر ض کیا، کیا لکھوں؟ فر مایا تقدیر ۔
تو قلم نے لکھا جو کچھ ہوچکا تھا اور جو اَبدتک ہونے والا تھا۔ (ترمذی، مشکوۃ)
مُلّا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ البار ی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
’’فَالأَوَّلِیَّۃُ إِضَافِیَّۃٌ وَالأَوّلُ الْحقِیْقیُّ ھُوَالنُّورُ الْمُحَمَّدِیّ‘‘۔ (3)
یعنی قلم کی اولیت اضافی ہے اور اوّلِ حقیقی نورِ محمدی ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول ص۱۳۹)
(۳)’’عَنْ مَطْرِبْنِ عُکَامِسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ
حضرت مطربن عُکامس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ

اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّم إِذَا قَضَی اللَّہُ لِعَبْدٍ أَنْ یَّمُوْتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَہُ إِلَیْھَا حَاجَۃً۔ (1)
رسول عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ جب خدائے تعالیٰ کسی شخص کی موت کسی زمین پر مقدر کردیتا ہے تو اس ز مین کی طرف اس کی حاجت پیدا کردیتا ہے ۔ (ترمذی، مشکوۃ)
(۴)’’عَنْ أَبِیْ خُزَامَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللَّہِ أَرَأَیْتَ رُقًی نَسْتَرْقِیْھَا وَدَوَائً نَتَدَاوَی بِہِ وَتُقَاۃً نَتَّقِیْھَا ھَلْ تَرُدَّ مِنْ قَدَرِ اللَّہِ شَیْئاً قَالَ ھِیَ مِنْ قَدَرِ اللَّہِ۔ (2)
حضرت ابو خزامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا فرماتے ہیں آپ منتر کے بارے میں جسے ہم پڑھتے ہیں ، اور دوا کے بارے میں جسے ہم
استعمال کرتے ہیں، اور بچائو کے بارے میں جسے ہم ( جنگ وغیرہ میں) اختیار کرتے ہیں۔ کیا یہ چیزیں خدائے تعالیٰ کی قضا و قدر کو بدل دیتی ہیں؟ فرمایا کہ یہ چیزیں بھی خدائے تعالیٰ کی قضاء و قدر سے ہیں۔ ( ترمذی، ابن ماجہ، مشکوۃ)
(۵)’’عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّم وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِی الْقَدَرِ فَغَضِبَ حَتَّی اِحْمَرَّ وَجْھُہُ حَتَّی کَأَنَّمَا فُقِیئَ فِیْ وَجْنَتَیْہِ الرُّمَّانُ فَقَالَ أَبِھَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِھَذَا أُرْسِلْتُ إِلَیْکُمْ إِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حِیْنَ تَنَازَعُوْا فِیْ ھَذَا الْأَمْرِ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ أَنْ لاَّ تَنَازَعُوْا فِیْہِ۔ (3)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ہم لوگ تقدیر کے مسئلہ میں بحث کررہے تھے کہ رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے تو شدتِ غضب سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا کہ گویا انار کے دانے آپ کے عارضِ اقدس پر نچوڑ دیئے گئے ہوں۔ پھر فرمایا کیا تم کو اسی کا حکم دیا گیا ہے ؟کیا میں تمہاری طرف اسی چیز کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔ تم سے پہلے قومیں ہلاک نہیں ہوئی مگر جب کہ قضا و قدر کے مسئلہ میں
انہوں نے مباحثہ کیا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں اور مکرر قسم دیتا ہوں کہ آئندہ اس مسئلہ میں بحث نہ کرنا۔ (ترمذی، مشکوۃ)

انتباہ :

(۱)… تقدیر حق ہے اس کا انکار کرنے والا گمراہ ، بدمذہب، اہلِ سنّت و جماعت سے خارج ہے ۔
(۲)… خدائے تعالیٰ نے ہر بھلائی برائی اپنے علم ازلی کے موافق مقدر فرمادی ہے ۔ جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کرنے والا تھا اپنے علم ازلی سے جان کر لکھ لیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا۔ اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا تو خدائے تعالیٰ بھلائی لکھتا۔ خلاصہ یہ کہ خدائے تعالیٰ کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی شخص کو کسی کام کے کرنے پر مجبور نہیں کردیا ۔ (1) (بہار شریعت)
اور جیسا کہ حضرت مُلّا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی شرح فقہ اکبرص:۴۹میں فرماتے ہیں کہ :
کَتَبَ اللَّہُ فِیْ حَقِّ کُلِّ شَیئٍ بِأَنَّہُ سَیَکُوْنُ کَذَا کَذَا وَلَمْ یَکْتُبْ بِأَنَّہُ لِیَکُنْ کَذَا کَذَا۔ (2)
(۳)… قضا کی تین قسمیں ۔ قضائے مبرم حقیقی ، قضائے معلق محض، قضائے معلق شبیہ بہ مبرم۔

________________________________
1 – ’’صحیح مسلم ‘‘، کتاب القدر، باب حجاج آدم وموسی علیہما السلام، الحدیث: ۱۶۔ (۲۶۵۳)، ص:۱۴۲۷، ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول، الحدیث: ۷۹، ج۱، ص۳۶.
2 – ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب کتاب القدر، الحدیث: ۲۱۶۲، ج۴، ص۶۲، ’’ مشکاۃ المصابیح‘‘ ، کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الفصل الثانی، الحدیث: ۹۴، ج۱، ص۳۹.
3 – ’’ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الإیمان، الحدیث: ۹۴، ج۱، ص۲۸۹.

________________________________
1 – ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب القدر، باب ما جاء أن النفس تموت إلخ، الحدیث: ۲۱۵۳، ج۴، ص۵۸، ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ ، کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الحدیث: ۱۱۰، ج۱، ص۴۲.
2 – ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب القدر، باب ما جاء لا ترد الرقی و لا الدواء إلخ، الحدیث: ۲۱۵۵، ج۴، ص۵۹، ’’سنن ابن ماجہ‘‘، کتاب الطب، باب ما أنزل اللہ داء إلخ، الحدیث: ۳۴۳۷، ج۴، ص۸۸، ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الفصل الثانی، الحدیث: ۹۷، ج۱، ص۴۰.
3 – ’’سنن ترمذی‘‘، کتاب القدر، باب ما جاء من التشدید إلخ، الحدیث: ۲۱۴۰، ج۴، ص ا۵، = ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الفصل الثانی، الحدیث: ۹۸، ج۱، ص۴۰.

Exit mobile version