’’طلب العلم فریضۃ‘‘ سے مراد

’’طلب العلم فریضۃ‘‘ سے مراد

حدیث طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَّمُسْلِمَۃٍ (ہرمسلمان مرد وعورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے )
بوجہ کثرت طرق وتعدد مخارج حدیث حسن ہے اس کا صریح مفاد ہرمسلمان مردوعورت پر طلبِ علم کی فرضیت تو یہ صادق نہ آئے گا مگر اس علم پر جس کا تعلم فرض عین ہو اور فرض عین نہیں مگر ان علوم کا سیکھنا جن کی طرف انسان بالفعل اپنے دین میں محتاج ہو ان کا اعم واشمل واعلی واکمل واہم واجل علم اصول عقائد ہے جن کے اعتقاد سے آدمی مسلمان سنّی المذہب ہوتاہے اور انکارومخالفت سے کافر یابدعتی، والعیاذباﷲتعالیٰ۔ سب میں پہلا فرض آدمی پر اسی کا تعلّم ہے اور اس کی طرف احتیاج میں سب یکساں، پھر علمِ مسائلِ نماز یعنی اس کے فرائض وشرائط ومفسدات جن کے جاننے سے نماز صحیح طور پر ادا کرسکے ، پھر جب رمضان آئے تو مسائل صوم، مالکِ نصابِ نامی ہو تو مسائلِ زکوٰۃ، صاحبِ استطاعت ہو تو مسائلِ حج، نکاح کیاچاہے تو اس کے متعلق ضروری مسئلے ، تاجر ہو تو مسائل بیع وشراء ، مزارع پرمسائل زراعت، موجرومستاجر پر مسائل اجارہ، وعلی ہذا القیاس ہر اس شخص پر اس کی حالت موجودہ کے مسئلے سیکھنافرض عین ہے اور اِنہیں میں سے ہیں مسائل حلال وحرام کہ ہرفردِبشر ان کا محتاج ہے اور مسائل علمِ قلب یعنی فرائض قلبیہ مثل ِتواضع واِخلاص وتوکل وغیرہا اور ان کے طرق تحصیل اور محرمات باطنیہ تکبر وریا وعُجب وحسد وغیرہا اور اُن کے معالجات، کہ ان کا علم بھی ہرمسلمان پر اہم فرائض سے ہے جس طرح بے نماز فاسق وفاجر ومرتکب کبائر ہے یونہی بعینہ ریاء سے نماز پڑھنے والا انہیں مصیبتوں میں گرفتارہے نَسْئَلُ اﷲَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ (ہم اﷲتعالیٰ سے عفووعافیت کاسوال کرتے ہیں۔ ت) تو صرف یہی علوم، حدیث میں مراد ہیں وبس۔ (فتاوی رضویہ، ج۲۳، ص ۶۲۳)

Exit mobile version