تخت سکندری پریہ تھوکتے نہیں

تخت سکندری پریہ تھوکتے نہیں

حضرت سیدنا زائدہ بن قدامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں :” حضرت سیدنا منصور بن معتمد علیہ رحمۃ اللہ الا َحد بہت متقی وپرہیزگار شخص تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے چالیس سال اس حال میں گزارے کہ مسلسل روزہ رکھتے اور ساری ساری رات قیام فرماتے (یعنی عبادت کرتے )آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر راتوں کو روتے اوربڑے دردبھرے انداز میں اپنے پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرتے ،روتے روتے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہچکیاں بندھ جاتیں ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ محترمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا فرماتیں:” اے میرے لال ! کیا تو اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈال کر ہلاک کرنا چاہتاہے ؟”تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عاجزی کرتے ہوئے فرماتے:” اے میری پیاری ماں! میں اپنے نفس کے کارناموں سے خوب آگاہ ہوں،میں اپنی حالت خوب جانتا ہوں کہ نفس مجھے کس طرح گناہوں میں مبتلا کرنا چاہتاہے ۔”
حضرت سیدنا زائدہ بن قدامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں :”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند نرم ونازک اور خوبصورت تھے۔ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی نورانی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ سرِمبارک میں تیل ڈالا اور

کسی کام سے باہر تشریف لے گئے۔ راستے میں” کوفہ ”کے گورنریوسف بن عمر نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پکڑ لیا۔وہ چاہتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو قاضی بنا دیا جائے لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اورفرمایا: ”میں کبھی بھی یہ ذمہ داری قبول نہ کروں گا۔ ”
جب کوفہ کے گورنر یوسف بن عمر نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاجرأت مندانہ جواب سنا تو اسے بہت غصہ آیا اوراس نے حکم دیا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بیڑیوں میں جکڑ کر قید خانے میں ڈال دیا جائے ۔ حضرت سیدنا زائدہ بن قدامۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں: ”جب مجھے یہ خبر ملی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گورنر پکڑکر لے گیا ہے تومیں فوراًاس کے دربار میں پہنچا ، سپاہی بیڑیاں لے کر آیا ہی تھا کہ دو درباری گورنر کے پا س اپنے کسی مقدمے کافیصلہ کروانے آئے لیکن اس نے نہ تو ان کے مقدمہ کی سماعت کی اورنہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ خواہش تھی کہ کسی طرح حضرت سیدنا منصور بن معتمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد قاضی کا عہدہ قبول کرلیں اور وہی لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسلسل انکار کرتے رہے ۔ پھر کسی کہنے والے نے یوسف بن عمر سے کہا : ”اگر تو حضرت سیدنا منصور بن معتمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد کے جسم کا سارا گوشت بھی اتار ڈالے تب بھی یہ تیرے لئے قاضی کا عہدہ قبول نہ فرمائیں گے ۔”یہ سن کر یوسف بن عمر نے حکم دیا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو آزاد کر دیا جائے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سبحان اللہ عزوجل ! ہمارے بزرگان دین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی کیا انوکھی شان تھی کہ انہیں سخت سے سخت سزاتو منظور تھی لیکن اقتدار وحکومت کی ہوس نہ تھی۔وہ کبھی بھی دنیاوی عہدوں کی خواہش نہ کرتے، بلکہ ان کے نزدیک تو سب سے بڑا عہدہ یہ تھا کہ اللہ عزوجل کی رضا نصیب ہوجائے ،اس کی بارگاہ میں ہماری مقبولیت ہوجائے ۔ دنیاوی شان وشوکت، رعب ودبدبہ ان کی نظروں میں کچھ بھی نہ تھا وہ تو عاجزی اورانکساری کے پیکر ہوا کرتے تھے۔ ا ن کا سب سے اہم مقصداللہ عز وجل کی دائمی رضا کا حصول تھا۔ اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں بھی دنیا کی محبت سے بچا کر اپنی محبت عطافرما ۔اورسچی عاجزی کی توفیق عطا فرما۔ ان بزرگوں کے صدقے ہم سے ہمیشہ کے لئے راضی ہوجا۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)

Exit mobile version