سیدہ فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا ام الخیر – عظیم مائیں
پیران پیر دستگیر سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ ام الخیرؒ نہایت پاکباز، عابدہ، زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون تھیں۔ ان کی شادی سید ابو صالح جنگی دوستؒ سے ہوئی تھی جو متقی اور عارف باللہ بزرگ تھے۔ سید ابو صالحؒ لڑکپن سے ہی ریاضت اور مجاہدے میں مشغول رہتے تھے۔ ایک روز دریا کے کنارے عبادت کر رہے تھے کہ دریا میں بہتا ہوا ایک سیب دیکھا۔ بسم اللہ پڑھ کر سیب کھا لیا اور دل میں خیال آیا کہ پتا نہیں کس کا تھا؟ یہ سوچ کر پانی کے بہاؤ کے مخالف سمت سیب کے مالک کی تلاش میں چل پڑے۔ کافی فاصلہ کے بعد انہیں ایک باغ نظر آیا۔ سید ابو صالحؒ نے سیب کے مالک کا پتہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس کے مالک جیلان کے ایک رئیس سید عبداللہ صومعی ہیں۔ ابو صالحؒ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بلا اجازت سیب کھانے کی معافی چاہی۔
سید عبداللہ صومعیؒ ولی اللہ تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ نوجوان اللہ کا خاص بندہ ہے۔ فرمایا:
“دس سال تک اس باغ کی رکھوالی کرو پھر معاف کرنے کے بارے میں سوچوں گا۔”
سید ابو صالحؒ دس سال تک باغ کی رکھوالی کرتے رہے۔ دس سال بعد سید عبداللہ نے فرمایا:
“دو سال اور باغ کی رکھوالی کرو۔”
بارہ سال پورے ہونے کے بعد سید عبداللہ نے اپنی بیٹی کی شادی سید ابو صالحؒ سے کر دی۔ اس طرح دو پاکباز ہستیوں کی رفاقت کا آغاز ہوا۔ سیدہ فاطمہ ام الخیرؒ سے اسلام کی مایہ ناز ہستی عبدالقادر جیلانیؒ پیدا ہوئے۔ آپؒ ابھی کمسن ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔
ماں نے بڑے صبر اور حوصلہ سے بیٹے کی تعلیم و تربیت کی۔ مدرسہ کی ابتدائی تعلیم پوری ہونے کے بعد مزید علوم سیکھنے کے لئے بغداد بھیج دیا۔ بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا:
“نور نظر! تمہاری جدائی ایک لمحہ کے لئے بھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی لیکن تم علم حاصل کرنے کے لئے بغداد جا رہے ہو۔
میں چاہتی ہوں کہ تم تمام علوم میں کمال حاصل کرو، تمہارے والد کے ترکہ میں سے اسیّ(۸۰) دینار میرے پاس ہیں، چالیس دینار تمہارے بھائی کے ہیں اور چالیس دینار تمہیں دے رہی ہوں۔ بیٹا! میری نصیحت ہے کہ جھوٹ نہ بولنا۔ اب تم جاؤ اللہ تمہاری حفاظت کرے۔ آمین”
دوران سفر جب ڈاکوؤں کے سردار نے آپؒ سے پوچھا کہ تم نے ہمیں کیوں بتایا کہ تمہاری گدڑی میں دینار ہیں؟ تو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا:
“میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ جھوٹ نہ بولنا۔”
یہ سن کر سردار پر رقت طاری ہو گئی۔ اس نے کہا:
“تمہیں اپنی ماں سے کئے ہوئے عہد کا اتنا پاس ہے اور میں اتنے سالوں سے اللہ سے کیا ہوا عہد توڑ رہا ہوں۔”
سردار نے توبہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کر لی اور سردارڈاکو سے پرہیز گار انسان بن گیا۔
سیدہ فاطمہ نے اپنے لخت جگر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے خود سے جدا کر کے دور دراز علاقوں میں بھیجنے سے بھی گریز نہ کیا۔ آپ کے بارے میں تاریخ خاموش ہے کہ آپ کی وفات کب اور کہاں ہوئی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ دنیا کی بہترین ماوٴں میں سے ایک تھیں۔