سنت اور بدعت میں فرق

سنت اور بدعت میں فرق

(1)’’عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ أُمّتِیْ فَلَہُ أَجْرُ مِئَۃِ شَھِیْدٍ۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسول کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ جو شخص میری امت میں (عملی یا اعتقادی) خرابی پیدا ہونے کے وقت میری سنت پر عمل کرے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ (مشکوۃ)
(2)’’عَنْ بِلالِ بْنِ حَارِ ثِ الْمُزَنِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحْیَی سُنَّۃً مِّنْ سُنَّتِیْ قَدْ اُمِیْتَتْ بَعْدِیْ فَإِنَّ لَہُ مِنَ الْأَجْرِمِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِھِمْ شَیْئاً وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَۃً ضَلَالَۃً لَایَرْضَاہُ اللَّہُ وَرَسُوْلُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِھَا لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أَوْزَارِھِمْ شَیْئاً۔ (2) (ترمذی، مشکوۃ)
حضرت بلال بن حارث مزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری کسی ایسی سنت کو ( لوگوں میں) رائج کیا جس کا چلن ختم ہوگیا ہو تو جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان سب کے برابر رائج کرنے والے کو ثواب ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ اور جس نے کوئی ایسی نئی بات نکالی جو سیّئہ ہے جسے اللہ و رسول ( جل جلالہ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) پسند نہیں فرماتے تو جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان سب
کے برابر نکالنے والے پر گناہ ہوگا اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی نہ ہوگی۔
(3)’’عَنْ جَرِیْرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً
حضرت جریر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسول ِکریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ جو اسلام میں کسی اچھے طریقہ
حَسَنَۃً فَلَہُ أَجْرُھَا وَأَجْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ، وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سَنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَیْئٌ۔ (1) (مسلم، مشکوۃ)کو رائج کرے گا تواس کو اپنے رائج کرنے کا بھی ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی جو اس کے بعد ا س طریقہ پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہوگی۔ اور جو مذہبِ اسلام میں کسی برے طریقہ کو رائج کرے گا تو اس شخص پر اس کے رائج کرنے کا
بھی گناہ ہوگا ، اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہوگا جو اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
(4)’’عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللَّہِ وَخَیْرُالْھُدَی ھُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرّالْاُمُوْرِ مُحْدَثَا تُھَا، وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔ (2) (مسلم، مشکوۃ)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سر کار ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (غالباً ایک خطبہ میں) فرمایا۔ بعد حمد الہٰی کے معلوم ہونا چاہیے کہ سب سے بہتر کلام کتاب اللہ ہے اور بہترین راستہ محمد ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کا راستہ ہے اور بدترین چیزوں میں وہ ہے جسے نیانکالا گیا اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
شرح حدیث:
حضرت مُلّا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ :
قَالَ النَّووی البِدعۃُ کلّ شی ئٍ عمل علی غیر مثال سبق، وفی الشرع إحدَاثُ ما لم یَکنْ فی عھدِ رسولِ اللَّہِ صلَّی اللَّہ تعالی علیہ وسلَّم وقولہ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ عامٌ مخصوصٌ
یعنی امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسا کام جس کی مثال زمانہ سابق میں نہ ہو ( لغت میں) اس کو بدعت کہتے ہیں۔ اور شرع میں بدعت یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کا ایجاد کرنا جو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی

قال الشیخُ عزّالدین بن عبد السلام فِی آخرِ ’’کتابِ القواعد‘‘ اَلبدعَۃُ إِمّا وَاجبۃٌ کتعلّمِ النحوِ لِفَھم کلام اللَّہ ورسولِہِ وکتدویْنِ أُصُولِ الْفقۃ والکَلام فِی الجَرح والتَّعدیلِ وَإِمّا مُحرَّمۃٌ کمذہب الجبریَّۃِ والقَدریَّۃ وَالمرجئیَّۃ والمجسِّمۃ والردُّ علی ھؤلاء من البِدَعِ الواجبۃ لأنَّ حفظَ الشَّریْعۃِ مِن ھذہ البِدَعِ فرضُ کفایۃٍ وَإِمَّا مَندُوبَۃٌ کَإِحْدَاث الربطِ والمدارسِ وکلّ احسان لَمْ یَعْھَد فِی الصَّدر الْأوَّل وَکالتَّرَاویح أَیْ بِالجَمَاعَۃِ الْعَامَّۃِ والکلامِ فِی دقائق الصوفیَّۃِ۔ وَإِمَّا مَکْرُوْھَۃٌ کَزَخرَفۃ المَسَاجدِ وتزویق المصاحفِ یعنی عند الشافعیَّۃ وإما عِندَ الحنفیَّۃِ فمباحٌ وَإِمَّا مُبَاحَۃٌ کَالمُصَافَحَۃِ عَقیبَ الصُّبْح وَالْعصرِأَیْ عندَ الشَافعِیَّۃِ أَیضاً وَإِلَّا فَعِند الحَنفِیَّۃِ مکروہ وَالتَّوسعُ فِی لذَائذِ المآکلِ وَالمشارِبِ وَالمَسَاکِینِ وَتوسِیع الأَکمَامِ وَقَدْ اختلف فِی کراھَۃ بعض ذلک أَیْ کَمَا قَدَّمْنا قَالَ الشَّافعی رَحِمَہ اللَّہ مَا أحدث ممَّا یخَالفُ الکتاب أَوِالسنَّۃ أَوِالأثر أَوِالاجْمَاع فھو ضَلالۃٌ وَمَا أحدَثَ من الخیر ممَّا لَایخالف شیئاً مِنْ ذَلِکَ فَلیس
علیہ وسلم کے ظاہری زمانہ میں نہ تھی۔ اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قول’’ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘ عام مخصوص ہے ۔ ( یعنی بدعت سے مراد بدعت سیّئہ ہے ) حضرت شیخ عزالدین بن عبدالسلام نے ’’کتاب القواعد‘‘ کے آخر میں فرمایا کہ بدعت یا تو واجب ہے جیسے اللہ اور اس کے رسول کے کلام کو سمجھنے کے لیے علمِ نحو سیکھنا اور جیسے اصولِ فقہ اور اسماء الرجال کے فن کو مرتب کرنا۔ اور بدعت یا تو حرام ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ کا مذہب، اور ان بدمذہبوں کا رد کرنا بدعتِ واجبہ سے ہے اس لیے کہ ان کے عقائدِ باطلہ سے شریعت کی حفاظت فرض کفایہ ہے اور بدعت یا تو مستحب ہے جیسے مسافر خانوں اور مدرسوں کی تعمیر اور ہر وہ نیک کام جس کا رواج ابتدائی زمانہ میں نہیں تھا اور جماعت کے ساتھ تراویح اور صوفیائے کرام کے دقیق اور باریک مسائل میں گفتگو ۔ اور بدعت یا تو مکروہ ہے جیسے شافعیہ کے نزدیک قرآن مجید کی تزئین اور مساجدکا نقش و نگار اور یہ حنفیہ کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے ۔ اوربدعت یاتومباح ہے جیسے شافعیہ کے نزدیک صبح اور عصر کی نماز کے بعدمصافحہ کرنا ورنہ حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے ( تحقیق یہ ہے کہ بلا کراہت جائز ہے اسی کتاب میں مصافحہ کا بیان دیکھیے ) اور لذیذکھانے پینے اور رہنے کی جگہوں میں کشادگی

بمذمومٍ۔ (1)
اختیارکرنا اور کُرتے کی آستینوں کو لمبی رکھنا۔ اس میں سے بعض کی کراہت میں لوگوں نے اختلاف کیاہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ایسی چیز ایجاد کرنا جو قرآن مجید، حدیث شریف ، آثارِ صحابہ یا اجماع کے خلاف ہو تو وہ گمراہی ہے اور ایسی اچھی بات ایجاد کرنا جو ان میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہ بری نہیں ہے ۔
(مرقاۃ شرح مشکوۃ ، جلد اول، ص ۱۷۹)
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
’’بدانکہ ہر چہ پیدا شدہ بعد از پیغمبر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بدعت ست ازانچہ موافق اصول وقواعد سنت اوست وقیاس کردہ شدہ برآں آں را بدعت حسنہ گویند۔ وآنچہ مخالف آں باشد بدعتِ ضلالت گویند وکلیت ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ‘‘محمول بر این ست۔ وبعض بدعتہا ست کہ واجب ست چنانچہ تعلم وتعلیم صرف ونحو کہ بداں معرفت آیات واحادیث حاصل گردد وحفظ غرائب کتاب وسنت و دیگر چیز ہائیکہ حفظِ دین وملت برآں موقوف بود۔ وبعض مستحسن و مستحب مثل بنائے رباطہا و مدرسہا و بعض مکروہ مانند نقش ونگارکردن مساجد
یعنی جاننا چاہیے کہ وہ چیز جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظاہری زمانہ کے بعد ہوئی بدعت ہے ۔ لیکن ان میں سے جو کچھ حضور کی سنت کے اصول و قواعد کے مطابق ہے اور اسی پر قیاس کیا گیا ہے اس کو بدعت حسنہ کہتے ہیں اور ان میں جو چیز سنت کے مخالف ہو اسے بدعت ضلالت کہتے ہیں اور ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلالَۃٌ ‘‘ ( ہر بدعت گمراہی ہے ) کی کلیت بدعت کی اسی قسم پر محمول ہے یعنی ہر بدعت سے مراد صرف وہی بدعت ہے جو سنت نبوی کی مخالف ہو۔ اور بعض بدعتیں واجب ہیں جیسے کہ علم صرف و نحو کا سیکھنا سکھانا کہ اس سے آیا ت و احادیث کریمہ کے مفاہیم و مطالب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور قرآن و حدیث کے غرائب کا محفوظ کرنا اور دوسری چیزیں کہ دین و ملت کی حفاظت ان پر موقوف ہے ۔ اور بعض بدعتیں مستحسن و مستحب ہیں۔ جیسے سرائے

ومصاحف بقول بعض۔ وبعض مباح مثل فراخی در طعامہائے لذیذہ ولباسہائے فاخرہ بشرطیکہ حلال باشند وباعث طغیان وتکبر ومفاخرت نہ شوند ومباحات دیگر کہ در زمان آں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نبودند چنانکہ بیری وغربال ومانند آں۔ وبعض حرام چنانکہ مذہب اہل بدع واہوا برخلاف سنت و جماعت و آنچہ خلفائے راشدین کردہ باشند اگرچہ بآں معنی کہ در زمان آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نبودہ بدعت ست ولیکن قسم بدعت حسنہ خواہد بود بلکہ درحقیقت سنت ست‘‘۔ (1)
اور مدرسوں کی تعمیر۔ اور بعض بدعتیں مکروہ ہیں جیسے کہ بعض کے قول پر قرآن مجید اور مسجدوں میں نقش و نگار کرنا۔ اور بعض بدعتیں مباح ہیں جیسے کہ عمدہ کپڑوں اور اچھے کھانوں کی زیادتی بشرطیکہ حلال ہوں اور غرور و نخوت کا باعث نہ ہوں اور دوسری مباح چیزیں جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظاہری زمانہ میں نہ تھیں جیسے بیری اور چھلنی وغیرہ۔ اور بعض بدعتیں حرام ہیں جیسے کہ اہلِ سنت و جماعت کے خلاف نئے عقیدوں اور نفسانی خواہشات والوں کے مذاہب ۔ اور جو بات خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کی ہے اگرچہ اس معنی میں کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں نہیں تھی بدعت ہے لیکن بدعتِ حسنہ کے اقسام میں سے ہے بلکہ حقیقت میں سنت ہے ۔ (اشعۃ اللمعات ، جلد اول ص ۱۲۸)
اور شامی جلد اول ص:۳۹۳ میںہے :
’’ قَدْ تَکُونُ (أَیْ اَلْبِدْعَۃُ) وَاجِبَۃً، کَنَصْبِ الْأَدِلَّۃِ لِلرَّدِّ عَلَی أَہْلِ الْفِرَقِ الضَّالَّۃِ، وَتَعَلُّمِ النَّحْوِ الْمُفْہِمِ لِلْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَمَنْدُوبَۃً کَإِحْدَاثِ نَحْوِ رِبَاطٍ وَمَدْرَسَۃٍ وَکُلِّ إحْسَانٍ لَمْ یَکُنْ فِی الصَّدْرِ الْأَوَّلِ، وَمَکْرُوہَۃ
یعنی بدعت کبھی واجب ہوتی ہے جیسے گمراہ فرقے والوں پر رد کے دلائل قائم کرنا اور علم نحو کا سیکھنا جو قرآن و حدیث سمجھنے میں معاون ہوتا ہے ۔ اور بدعت کبھی مستحب ہوتی ہے جیسے مدرسوں اور مسافر خانوں کو تعمیر کرنا اور ہر وہ نیک کام کرنا جو ابتدائی
کَزَخْرَفَۃِ الْمَسَاجِدِ وَمُبَاحَۃ کَالتَّوَسُّعِ بِلَذِیذِ الْمَآکِلِ وَالْمَشَارِبِ وَالثِّیَابِ کَمَا فِی شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِیرِ لِلْمُنَاوِیِّ عَنْ تَہْذِیبِ النَّوَوِیِّ ، وَبِمِثْلِہِ فِی الطَّرِیقَۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ لِلْبِرْکِلِیِّ اہـ‘‘۔ (1)
زمانہ میں نہیں تھا۔ اور بدعت کبھی مکروہ ہوتی ہے ۔ جیسے مسجدوں کو آراستہ و مزین کرنا۔ اور بدعت کبھی مباح ہوتی ہے جیسے لذیذ کھانے پینے اور کپڑے میں کشادگی اختیار کر نا جیسا کہ’’ مناوی‘‘ کی شرح جامع صغیر میں تہذیب النووی سے منقول ہے اور اسی کے مثل برکلی کی کتاب ’’طریقہ محمدیہ ‘‘میں ہے ۔
٭…٭…٭…٭

________________________________
1 – ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثانی، الحدیث: ۱۷۶، ج۱، ص۵۵.
2 – ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنۃ إلخ، الحدیث: ۲۶۸۶، ج۴، ص۳۰۹، ’’ مشکاۃ المصابیح ‘‘، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثانی، الحدیث: ۱۶۸، ج۱، ص۵۴.

________________________________
1 – ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ إلخ، الحدیث: ۶۹۔ (۱۰۱۷)، ص:۵۰۸. ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب العلم، الفصل الأول، الحدیث: ۲۱۰، ج۱، ص۶۱.
2 – ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ، الحدیث: ۴۳۔ (۸۶۷)، ص:۴۳۰. ’’ مشکاۃ المصابیح‘‘ ، کتاب الإیمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الحدیث: ۱۴۱، ج۱، ص۴۹.

Exit mobile version