حکایت نمبر280: شاہی مال کاوبال
حضرتِ سیِّدُنابِشْربن حارِث علیہ رحمۃ اللہ الوارث سے منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُناابو جَعْفَررَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی اور حضرتِ سیِّدُناسُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی آپس میں بہت گہری دوستی تھی اور دونوں مشترکہ کاروبارکرتے اور ایک دوسرے کا بہت ادب واحترام کرتے ۔حضرتِ سیِّدُناابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی ہر سال حرمینِ شریفین جایا کرتے ۔ جب وہ کوفہ سے گزرتے تو حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کافی دور تک ان کے ساتھ جاتے۔اور ایک مرتبہ انہیں الوداع کہنے نجف شریف تک گئے ۔
کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ سفرِ حج کا ارادہ کیا تو کسی علاقے کے لوگوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے شکایت کی کہ ”خلیفہ نے ہم پر جو عامل مقرَّر کیا ہے وہ انصاف سے کام نہیں لیتا۔ بے جا ہمارے کاروبار میں دَخیل ہو کرہمیں پریشان کررکھا ہے ۔ اگر آپ خلیفہ تک ہمارا مسئلہ پہنچا دیں تو کرم نوازی ہوگی۔ لوگوں کی بات سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کوئی جواب نہ دیا اور جانبِ منزل چل دئیے۔اس واقعہ کی خبر جب حضرت سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو ہوئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان سے ملنے کوفہ کے
پُل پر گئے۔ خوب انکساری سے پیش آئے اور نجف شریف تک ان کے ساتھ گئے۔اگلے سال جب حضرت سیِّدُنا ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی دوبارہ حج کے ارادے سے گزرے تو لوگوں نے پھر عرض کی: ” حضور! ہمیں اس عامل سے نجات دلوادیں اورخلیفہ کے پاس ہماری سفارش کریں۔” اس مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان کی درخواست قبول کرلی اوران کا معاملہ حل کرنے کے لئے خلیفہ کے دربان سے کہا: ” خلیفہ کو پیغام دو کہ ابو جَعْفَر آپ سے ملنا چاہتاہے۔” خلیفہ کو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آنے کی خبر ملی تو دربان سے کہا:”انہیں نہایت ادب واحترام سے ہمارے پاس لے آؤ ۔” چنانچہ، خُدَّام فوراًآپ کو خلیفہ کے پاس لے گئے ۔ خلیفہ منصور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بڑی عاجزی وانکساری سے پیش آیا، خوب تعظیم وتوقیر کی ۔ پھرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حال دریافت کرتے ہوئے پوچھا: ”حضور! اگرمیرے لائق کوئی خدمت ہو تو ارشاد فرمائیے؟”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” ہاں! مجھے تم سے ایک ضروری گفتگوکرنی ہے ۔ یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سارا قصہ بیان کیا۔”خلیفہ نے فوراََ کہا: ” ہم نے اسے معزول کیا، اب اس علاقے والے جسے چاہیں اپنی خوشی سے عامل مقرر کرلیں مجھے ان کا مقرَّر کردہ عامل قبول ہوگا۔”
خلیفہ نے یہ حکم نامہ جاری کیا اورخادموں سے کہا: ” حضرت کو ہماری طرف سے دس ہزار درہم بطور ہدیۃًپیش کرو۔ ہم ان کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے ہم سے کسی کام کے متعلق سوال کیا۔”حضرت سیِّدُنا ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کو رقم دی گئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ سے کچھ دِرہم گر گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ درہم قبول کر کے میں نے بہت بڑی خطا کی ہے۔ لگتا ہے یہ دولت میرے حق میں نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اسی سوچ کے پیشِ نظر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ محل کی دیوار کے قریب بیٹھ گئے اورکچھ کپڑے منگواکر تھیلیاں بنائیں،انہیں دراھم سے بھرااور تمام رقم لوگوں میں تقسیم کردی۔ جب آپ واپس کوفہ آئے تو ان دراہم میں سے کچھ بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس موجود نہ تھا۔ حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ اطلاع ملی کہ حضرتِ سیِّدُنا ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی نے شاہی خزانے سے ہدیہ قبول کیاہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان سے ملنے کا ارادہ ترک کردیا اورلوگوں کو بتائے بغیر ایک مکان میں علیحدگی اختیارکرلی۔
جب حضرتِ سیِّدُنا ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کوفہ آئے تو حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو نہ پاکر لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا توسب نے لاعلمی کااظہار کیا۔ انہیں بہت تشویش ہوئی ۔بالآخر کافی تگ ودو کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمہ اللہ القوی کے ایک بہت قریبی دوست نے ان سے پوچھا :” کیا آپ کو حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے کوئی بہت ضروری کام ہے؟”فرمایا:” ہاں ۔” کہا:” آپ ان کے نام ایک رقعہ لکھ دیں، میں وہ رقعہ ان تک پہنچا دوں گا۔ میں آپ کے ساتھ اس سے زیادہ تعاون نہیں کرسکتا۔” آپ نے ایک رقعہ لکھ کر اسے دے دیا۔
وہ شخص کہتا ہے: ” میں رقعہ لے کرحضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
دیوار سے ٹیک لگائے قبلہ رُخ بیٹھے تھے۔ میں نے سلام کیا اوررقعہ نکا ل کر دکھایا۔ فرمایا: ” یہ کیا ہے ؟”میں نے کہا: ” ابو جَعْفَر رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کا خط۔” فرمایا:” سناؤ! اس میں کیا لکھا ہے ؟”میں نے پڑھ کر سنایا تو فرمایا:” اس کی دوسری جانب جواب لکھو ۔” میں نے دوسری جانب” بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم” لکھی اورعرض کی: حضور!کیالکھوں ؟”فرمایا:” پہلے یہ آیت لکھو: لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ
ترجمۂ کنزالایمان:لعنت کئے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داؤد کی زبان پر۔(پ6،المائدۃ:78)
پھر لکھو: ”ہمیں ہمارا مالِ تجارت واپس کردو۔ ہمیں اب اس کے نفع کی کوئی حاجت نہیں ۔”
پھر مجھ سے فرمایا:”جاؤ، یہ خط انہیں دے آؤ۔” میں خط لے کران کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ جمع ہیں ۔ سب نے خط پڑھالیکن اس کا مفہوم کوئی بھی نہ سمجھ سکا۔بالآخر یہ طے ہواکہ دونوں خط حضرت سیِّدُنا ابن ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس لے چلتے ہیں تاکہ ان کی رائے معلوم ہوسکے ۔لیکن انہیں بتایا نہ جائے کہ یہ خط کس کا ہے ۔ جب ان کے پاس خط پہنچا تو دیکھتے ہی فرمایا: ” جس نے پہلے خط لکھا وہ ایسا شخص ہے جس کے قول وفعل میں تضاد ہے اور جواب دینے والاایسا شخص ہے جو اپنے عمل کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کا طالب ہے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)