حکایت نمبر480: شاہِ ایران کا لباس
حضرتِ سیِّدُنا قاسم بن محمد بن ابو بَکْر علیہ رحمۃ اللہ الاکبر سے منقول ہے کہ ”جنگِ قادسیہ کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المؤمنین، خلیفۃالمسلمین حضرتِ سیِّدُناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کسریٰ(یعنی ایران کے بادشاہ) کی تلوار، قمیص، تاج، پٹکا اور دیگر اشیاء بھیجیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرتِ سیِّدُناسُرَاقَہ بن مالِک بن جُعْشُم مُدْلِجِیرضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے، وہ بہت طاقتوراور طویل القامت تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اے سُرَاقَہ! اٹھو اور یہ لباس پہن کر دکھاؤ ۔”حضرتِ سیِّدُنا سُرَاقَہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:”میرے دل میں پہلے ہی خواہش تھی۔ چنانچہ، میں کھڑا ہوا اور شاہِ ایران کا لباس پہن لیا۔” امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھاتو فرمایا:” اب دوسری جانب منہ کرو۔” میں نے ایسا ہی کیا۔ فرمایا:” اب میری طرف منہ کرو۔” میں آپ کی طرف مُڑگیاتوفرمایا:”واہ بھئی واہ ! قبیلہ مُدْلِج کے اس جوان کی کیا شان ہے! دیکھو تو سہی، شاہِ ایران کا لباس پہن کر، اس کی تلوارگلے میں لٹکا کر کیسالگ رہا ہے! اےسُرَاقَہ! اب جس دن تونے شاہِ ایران کا لباس پہنا وہ دن تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف والا تصور کیا جائے گا، اچھا! اب یہ لباس اُتار دو۔” پھر امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ خدا وندی جَلَّ جَلَالُہٗ میں اس طرح عرض گزار ہوئے:
”اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ !تُونے اپنے نبی ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (دُنیوی مال) سے منع فرمایا ،حالانکہ وہ تیری بارگاہ میں مجھ سے کہیں زیادہ محبوب ہيں اور مجھ سے بہت زیادہ بلند وبالا ہیں۔ پھر تُونے امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکْر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس (مال) سے منع فرمایا، حالانکہ وہ تیری بارگاہ میں مجھ سے زیادہ بلند مرتبے والے ہيں ۔پھر تُونے مجھے مال عطا فرما دیا۔ اے ميرے پاک پر وردگار عَزَّوَجَلَّ ! اگر تیری طر ف سے یہ خفیہ تدبیر ہے تومیں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔”
یہ کہہ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن عَوْف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ” شام سے قبل اس تمام مال کو غرباء میں تقسیم کردو۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)