سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکل کُشائی فرمائی

حکایت نمبر 406: سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکل کُشائی فرمائی

حضرتِ سیِّدُنا ابوسَہْل رَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کا بیان ہے : مجھے حضرتِ سیِّدُنا ابوحَسَّان زِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی نے بتایا: ”ایک مرتبہ مجھے شدید فقر و فاقہ اور مفلسی نے آلیا اور میری تنگدستی انتہاء کو پہنچ گئی ۔ قصاب، سبزی فروش اور دیگر دکان دار بار بار اپنے قرض کا مطالبہ کرتے لیکن میرے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ ایک دن میں اسی پریشانی کے عالم میں اپنے گھر بیٹھا ہواتھاکہ غلام نے کہا:” ایک حاجی صاحب دروازے پر موجود ہیں اور ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں۔” میں نے اسے بلوایا تووہ خُرَاسَانیِ شخص تھا،اس نے سلام کیا اور کہا: ” کیا آپ ہی ابوحَسَّان ہیں؟ ”میں نے کہا: ” جی ہاں! میں ہی ابوحَسَّان ہوں۔ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے ؟” کہا:” میں حج کے ارادے سے آیا ہوں میرے پاس دس ہزار درہم ہیں آپ یہ رقم بطورِ امانت اپنے پاس رکھ لیں میں حج سے واپسی پر لے لوں گا۔”
میں نے کہا:” لاؤ، اپنی رقم میرے سامنے رکھو۔” اس نے رقم کی تھیلیاں میرے سامنے رکھیں ان کا وزن کیا اور مہر لگا کر میرے حوالے کردیں پھر سلام کرکے واپس چلا گیا۔ میں نے سوچا کہ میں بہت تنگدست اور مجبور ہوں ،قرض خواہوں کے تقاضوں نے میرا سکون برباد کردیا ہے، اگر اس مجبوری کی حالت میں اس خُرَاسَانیِ حاجی کی رقم میں اپنے استعمال میں لاؤں تو میرا سارا معاملہ درست ہوجائے گا۔ پھر اس حاجی کے آنے تک اللہ ربُّ العزَّت نے کشادگی فرمادی تو میں بآسانی اس مال کا ضمان ادا کردوں گا۔ پس میں نے تھیلیاں کھولیں، قرض خواہوں کا سارا قرض ادا کیا، پھرکچھ اشیائے خورد ونوش اور دیگر ضروری سامان خریدلیا۔آج ہمارے ہاں کافی دنوں بعد خوشی آئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ خُرَاسَانیِ حاجی جانبِ حرم اپنی منزل پر روانہ ہوگیاہوگا۔ اوراس کے آنے تک میں رقم کا انتظام کرکے پوری رقم واپس کردوں گا۔ ہماراوہ دن بڑی فرحت ومسرت میں گزرا۔
دوسرے دن صبح صبح غلام نے کہا: ”وہی خُرَاسَانیِ حاجی دروازے پر موجود ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔” میں نے کہا:” اسے اندر بلالاؤ۔ ‘ ‘ وہ آیا اور کہا:” میں حج کے ارادے سے آیاتھا لیکن یہاں سے جانے کے بعدمجھے اپنے بیٹے کی وفات کی خبرملی ہے ۔ اب میں اپنے شہر جانا چاہتا ہوں، جو رقم بطورِ امانت آپ کے پاس رکھوائی تھی وہ واپس کردیجئے ۔” خُرَاسَانی کی اس بات نے مجھے ایسی پریشانی میں مبتلا کیا کہ اس سے قبل مجھے کبھی ایسی پریشانی کاسامنانہ ہواتھا۔ میں سوچ رہاتھاکہ اسے کیا جواب دوں؟ بالآخر میں نے کہا :” اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو عافیت عطا فرمائے۔ میرا گھر غیر محفوظ تھا میں نے آپ کی رقم کسی کودے دی ہے۔ آپ کل آکر اپنی رقم لے لینا۔” یہ سن کر خُرَاسَانیِ تو چلا گیا ، لیکن میں پریشانی میں مبتلا ہو گیا، مجھے کچھ سُجھائی نہ دیتا تھا کہ میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ اگر انکار کرتا ہوں تو یہ میرے لئے د نیا و آخرت کی ذلت ہے، اگر کہتا ہوں کہ تمہاری رقم خرچ ہوگئی تووہ شور مچائے گا اور سختی کریگا۔ اوریہ بات میرے لئے انتہائی اذیت ناک ہے۔ اسی سوچ و فکر اور پریشانی میں شام ہوگئی۔ رات نے آہستہ آہستہ اپنے پَر پھیلانے شروع کردیئے۔ مجھے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ کل صبح میں اسے کیا جواب دوں گا؟ نیند کوسوں دور تھی، میرے لئے آنکھیں بند کرنا بھی مشکل ہورہا تھا۔ میں نے غلا م کوسواری تیار کرنے کا حکم دیا تو اس نے حیران ہو کر کہا:” حضور!رات بہت ہوچکی ہے اس وقت آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ مناسب یہی ہے کہ آپ ابھی باہر نہ جائیں۔”
چنانچہ، میں واپس بستر پر آگیا۔ لیکن نیند تھی کہ آنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی میں بے چینی کے عالم میں کروٹیں بدلتا رہا۔ بار ہاباہر جانے کی کوشش کی لیکن ہر مرتبہ غلام باہر جانے سے روک دیتا۔ اسی بے چینی کے عالم میں پوری رات گزر گئی، طلوعِ فجر کے فوراً بعد میں اپنے خچر پر سوار ہوا اور نامعلوم منزل کی جانب چل دیا۔میں کوئی فیصلہ نہ کرپارہاتھا کہ کس طرف جاؤں؟ بالآخر میں نے سواری کی لگام چھوڑ دی ۔کچھ ہی دیر بعد میں نہر کے پُل پر آپہنچا۔ خچر پل کی جانب بڑھنے لگا تو میں نے اسے نہ روکا یہاں تک کہ پل پار کرلیا۔ اب میں سوچنے لگا کہ کہاں جاؤں؟ اگر گھر جاتا ہوں تو خُرَاسَانی میرے دروازے پر موجود ہوگا۔ میں اسے کیا جواب

دوں گا؟ اسی پریشانی کے عالم میں، مَیں نے خچر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ اب جہاں چاہے یہ مجھے لے جائے۔ میرا خچر خلیفہ مامون کے محل کی جانب بڑھنے لگا۔ محل کے دروازے کے قریب پہنچ کر میں سواری سے نیچے اُتر آیا۔ اتنے میں ایک شہسوار میرے قریب سے گزرا مجھے بغور دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ وہی شہسوار آیا اور کہنے لگا:”کیا تم ابوحَسَّان زِیَادِی ہو؟” میں نے کہا: ”جی ہاں!میں ہی ابوحَسَّا ن زِیَادِی ہوں۔” کہا:” آؤ، تمہیں امیر حسن بن سَہْل بلارہے ہیں۔” میں نے دل میں کہا:”امیر حسن بن سَہْل کو مجھ سے کیا کام۔” بہرحال میں اس کے ساتھ حسن بن سَہْل کے پاس پہنچا تواس نے مجھ سے کہا :” اے ابوحَسَّان! تمہیں کیاہواکہ ہم سے ملنے نہیں آتے؟ میں نے مصروفیات کی وجہ سے نہ آنے کا کہا تو اس نے کہا:” تم اصل بات چھپا رہے ہو، سچ سچ بتاؤ! کیا معاملہ ہے ؟یا تو تم کسی بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئے ہو یا تمہیں کوئی اور پریشانی لاحق ہے، جلدی بتاؤ ! اصل معاملہ کیا ہے؟ کس چیز نے تمہیں پریشان کررکھا ہے، میں نے آج رات تمہیں خواب میں بہت پریشان دیکھا ہے۔” امیر کی یہ بات سن کر میں نے شروع سے آخر تک سب قصہ کہہ سُنایا۔ میری غم ناک آپ بیتی سُن کراس نے کہا: ”اے ابو حَسَّان! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے غم میں مبتلا نہ کرے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیری مصیبت دور کردی ہے۔ یہ لو یہ دس ہزار درہم اس خُرَاسَانیِ کو دے دینا۔ اور یہ مزید دس ہزار درہم اپنے خرچ میں لانا۔ جب ختم ہوجائیں تو مجھے ضرور اطلاع دینا۔” یہ کہہ کر اس نے مجھے بڑی عزت و احترام کے ساتھ واپس کر دیا۔ میں اپنے گھر آیا تو خُرَاسَانی میرے دروازے پر موجودتھا میں نے دس ہزار درہم اس کے حوالے کردئیے ۔ اس طرح اللہ ربُّ العزَّت نے مجھے غم وحزن سے نجات دے کر وسعت و فراخی عطا فرمادی بے شک وہی تمام تعریفوں کے لائق ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔اس حکایت کو علامہ تَنُوْخِی نے کچھ اس طرح بیان کیاہے کہ ”جب حضرتِ سیِّدُنا ابوحَسَّان زِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی پریشانی کے عالم میں اپنے گھر سے باہر نکلے تو راستے میں کچھ لوگ ملے، انہوں نے آپ سے پوچھا:” کیا آپ ابوحَسَّان زِیَادِی نامی شخص کو جانتے ہیں؟” میں نے کہا:” میں ہی ابوحَسَّان زِیَادِی ہوں۔ بتائیے !آپ کو مجھ سے کیا کام ہے ؟” انہوں نے کہا: ”خلیفہ مامون الرشیدنے آپ کو بلوایا ہے۔” چنانچہ، وہ مجھے لے کر خلیفہ مامون الرشید کے پاس پہنچے۔ خلیفہ نے مجھ سے پوچھا: ”تم کون ہو ؟” میں نے کہا: ”میں قاضی ابویوسف مدظلہ، العالی کے دوستوں میں سے ہوں۔” خلیفہ نے پھر پوچھا:”تمہاری کنیت کیا ہے؟” میں نے کہا:” ابوحسان۔” کہا:” کس نام سے مشہور ہو؟” میں نے کہا:” زیادی کے نام سے۔” کہا:” بتاؤ! تمہارا کیا معاملہ ہے؟” میں نے اوّل سے آخر تک سارا واقعہ خلیفہ کوسنادیا۔ میری درد بھری داستان سُن کر خلیفہ نے زارو قطار روتے ہوئے کہا: ” تیرا بھلا ہو! آج رات تیری وجہ سے مجھے کئی مرتبہ سرکارِ نامدار، بے کسوں کے مدد گار، شفیعِ روزِ شمار، بِاِ ذن ِ پروردْگار دوعالم کے مالک و مختار عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دیدار نصیب ہوا ہے ۔ ہو ا یوں کہ جب میں سویا تو خواب میں مکّی مدنی مشکل کشا نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمَ کی زیارت نصیب ہوئی، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ” ابوحَسَّان زِیَادِی کی مدد کرو۔”

میں اس حال میں بیدار ہواکہ تم سے واقف نہ تھا لیکن تمہارا نام اچھی طرح یاد کرلیا تھا تاکہ صبح تمہارے متعلق معلومات کرواسکوں،میں دوبارہ سو گیا۔ خواب میں پھر حضورِ انورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائے اور حکم فرمایا: ” ابوحَسَّان زِیَادِی کی مدد کرو۔” میں گھبرا کر بیدار ہواکچھ دیربعد دوبارہ آنکھ لگ گئی۔ اس مرتبہ پھر شفیعِ روزِ شمار،بِاذنِ پروردگار دوعالم کے مالک و مختار عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:” جاؤ اور ابوحَسَّان زِیَادِی کی مدد کرو۔” اس کے بعد میں دوبارہ نہیں سویا اور ابھی تک جاگ رہا ہوں۔ میں نے رات ہی سے تمہاری تلاش میں خدَّام بھیج رکھے ہیں۔ پھر خلیفہ مامون الرشید نے دس ہزار(10,000) درہم دیتے ہوئے کہا :”یہ رقم اس خُرَاسَانیِ کو دے دینا۔ مزید دس ہزار درہم دیتے ہوئے کہا: ”ان کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرلینا۔مزید تیس ہزار(30,000) درہم دیتے ہوئے کہا: ”اس رقم سے اپنے بچوں کی شادی وغیرہ کے لئے سامان خریدکران کی شادی کردینا۔” پھر بڑی عزت و تکریم کے ساتھ مجھے روانہ کردیا۔میں نے صبح کی نماز پڑھ کر خُرَاسَانی کو دس ہزار دراہم کی تھیلیاں واپس کیں تو اس نے کہا :”یہ وہ تھیلیاں نہیں ہیں جو میں نے دی تھیں۔”
میں نے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیاتو اس نے زار و قطار روتے ہوئے کہا: ” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر آپ مجھے پہلے ہی اپنا واقعہ بتادیتے تو میں کبھی بھی آپ سے رقم کا مطالبہ نہ کرتا، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!اب تومیں ایک درہم بھی آپ سے نہ لوں گا۔یہ رقم آپ کو مُبَارَک ہو! میرا آپ پر اب کوئی مطالبہ نہیں ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے وطن چلا گیا۔میں جب ایک شاہی تقریب کے موقع پر مامون کے دربارگیا تواس نے سرکاری کاغذات تھماتے ہوئے کہا: ”جاؤ، آج سے تم فلاں فلاں علاقے کے قاضی ہو۔ ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے رہنا ۔اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر ہمیشہ عنایتِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بادل سایہ فگن رہیں گے۔” راوی کہتے ہیں: ”حضرتِ سیِّدُنا ابوحَسَّان زِیَادِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تادمِ آخر عہدۂ قضاء پر فائز رہے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(برادرِ اعلیٰ حضرت حسن رضا خان علیہ رحمۃ الحنان بارگاہِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میں یوں عرض کرتے ہیں:
؎ تمہارے در کے ٹکڑوں سے پڑا پَلتا ہے اِک عالَم
گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے
مزید فرماتے ہیں:
؎ فقیرو بے نواؤ ! اپنی اپنی جھولیاں بھر لو
کہ باڑا بٹ رہا ہے فیض پر سرکارِ عالی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدا ئے حنّان و منّان کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں نبئ آخر الزماں، سلطانِ کون ومکان ،رحمتِ عالَمْیَان ،سرور ِ ذیشان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے دامن سے وابستگی عطا فرمائی۔ یہ تو وہ نبی ہیں جنہیں ہماری تکلیفوں اور پریشانیوں سے رَنج ہوتاہے ۔ہمارا مصیبت میں پڑنا ان پر گراں گزرتا ہے۔ ہماری خوشی سے ان کے دلِ دلبہارکو خوشی نصیب
ہوتی ہے۔ جب بھی ان کا کوئی امتی پریشان ومصیبت زدہ ہوتا ہے تو مشکل کشائی فرما کر اپنے اس غلام کا دل خوش کر دیتے ہیں۔
جس طرح حیاتِ ظاہری میں وہ نورِ مُجَسَّم اپنے نور سے عاصیوں کے سیاہ دلوں کو نور بار کیا کرتے تھے ، اسی طرح وصال ظاہری کے بعد بھی ان کے لطف و کرم کا بادل سوکھے اورمرجھائے ہوئے غمگین دلوں کوپُربہار کررہا ہے۔ ان کا جودو کرم ہم پر جاری وساری ہے۔ جو امتی اس دربارِ گُہربار میں اپنا حالِ دل سناتاہے اس کی پریشانیاں حل ہو جاتی ہیں اور اس پر نعمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے۔ بلکہ و ہ نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تو ایسے رحیم وکریم ہیں کہ منگتوں کو مانگنے سے قبل ہی عطا فرما دیتے ہیں۔
؎ کبھی ایسا نہ ہوا ان کے کرم کے صدقے ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو !
اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ہماری نسبت سلامت رکھے ۔اپنی دائمی رضا عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا پڑوس عطا فرمائے ۔)( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)

Exit mobile version