سمند ر پر نماز پڑھنے والا عارف

حکایت نمبر252: سمند ر پر نماز پڑھنے والا عارف

حضرتِ سیِّدُناحارِث اَوْلَاسِی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں :”ایک مرتبہ میں مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًاسے شام کی طرف روانہ ہوا ، دورانِ سفر ایک قافلہ نظر آیا میں قریب گیا تو سب لوگ کسی بات پر گفتگو کر رہے تھے میں نے سلام کیااور کہا:” میں بھی آپ کے ہمراہ سفر کرنا چاہتاہوں ،کیا آپ مجھے اپنے ساتھ رکھنے کو تیار ہیں؟” کہا :” جیسے تمہاری مرضی ۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔” چنانچہ، میں بھی اس قافلے میں شامل ہو گیا ۔ مسافر اپنی اپنی مطلوبہ منزل پر ٹھہرتے رہے ۔ آخر میں میرے ساتھ صرف ایک شخص بچا۔ اس نے مجھ سے پوچھا:” اے جوان!کہاں کا ارادہ ہے ؟” میں نے کہا:” ملک شام میں”کو ہِ لُکَام” میری منزل ہے ، وہاں حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن سعدعَلْوِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی زیارت کے لئے جارہا ہوں۔”
میرا وہ رفیق چند دن میرے ساتھ رہا پھر مجھ سے جدا ہوگیا۔میں اکیلا ہی سفر کرتا ہوا”اَوْلَاس”پہنچا اور سمندر کی جانب چلا گیا، وہاں کا منظر ہی عجیب تھا۔ ایک شخص سمندر کی لہروں پر اتنے سکون سے نماز پڑھ رہا تھا گویا زمین پر ہے۔ یہ عجیب وغریب

منظر دیکھ کر مجھ پر ہَیْبَتْ طاری ہونے لگی ۔ جب اس نے محسوس کیا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے تو نماز کو مختصرکرکے میری طرف متوجہ ہوا۔میں نے دیکھا تو فوراً انہیں پہچان لیا وہ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن سعد عَلْوِی علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے ۔انہوں نے مجھ سے فرمایا: ”ابھی تم یہاں سے چلے جاؤ تین دن بعدآنا۔” میں فوراً واپس چلا آیا اور حسب ِ ارشاد( حکم کے مطابق) تین دن بعد دوبارہ ساحلِ سمندر پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میرے قدموں کی آہٹ سن کر انہوں نے نماز مختصر کی اورفراغت کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر سمندر کے پانی کے بالکل قریب کھڑا کردیا۔ پھر ان کے ہونٹوں نے جُنبش(یعنی حرکت) کی اور وہ آہستہ آہستہ کچھ پڑھنے لگے ، میں نے دل میں کہا:” اگر آج یہ سمندر کے پانی پرچلے تو مجھے بھی ان کے ساتھ سمندر کے پانی پرچلنے کا موقع مل جائے گا۔”میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سمندر کے پانی میں دو اژدھے ظاہر ہوئے ۔ وہ سراٹھائے منہ کھولے ہماری طرف بڑھنے لگے ، میں نے اپنے دل میں کہا:” کاش !یہاں کوئی شکاری ہوتا جو انہیں پکڑلیتا۔ جیسے ہی میرے دل میں یہ خیال آیا ، فوراً وہ دونوں اژدھے پانی میں غائب ہوگئے ۔ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن سعد عَلْوِی علیہ رحمۃ اللہ القوی میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہاں سے چلے جاؤ، ابھی تم اپنی طلب کو نہیں پہنچ سکتے۔ جاؤ، ابھی پہاڑوں میں گوشہ نشینی اختیارکرو، دنیوی زندگی کو بہت کم سمجھو اورجو کچھ مل جائے اسی پر صبر کرو یہاں تک کہ تمہیں پیغام اَجل آجائے۔ اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے وہیں چھوڑ کر ایک سمت تشریف لے گئے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)

Exit mobile version