سلام کرنا سنت ہے

سلام کرنا سنت ہے

(۱)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلَی شَیْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ‘‘۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتائوں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے درمیان محبت بڑھے اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو۔ (مسلم)
(۲)’’ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلسَّلَامُ قَبْلَ الْکَلَامِ‘‘۔ (2)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ کلام سے پہلے سلام کرنا چاہیے ۔ (ترمذی)
(۳)’’ عَنْ عَبْدِاللَّہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلْبَادِیُ بِالسَّلَامِ بَرِیٌّ مِنَ الْکِبْرِ‘‘۔ (3)
حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ سلام میں پہل کرنے والا غرو ر و تکبر سے پاک ہے ۔ (بیہقی)
(۴)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا انْتَہَی أَحَدُکُمْ إِلَی مَجْلِسٍ فَلْیُسَلِّمْ فَإِنْ بَدَأَ لَہُ أَنْ یَجْلِسَ فَلْیَجْلِسْ ثُمَّ إِذَا قَامَ فَلْیُسَلِّمْ ‘‘۔ (4)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے پھر اگر بیٹھنے کی ضرورت ہو تو بیٹھ جائے اور جب چلنے لگے تو دوبارہ سلام کرے ۔ (ترمذی)

نوٹ :

جو لوگ قرآن شریف یا وعظ سننے سنانے میں مشغول ہوں یا پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوں انہیں سلام نہ کیا جائے ۔
(۵)’’ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَی أَہْلِکَ فَسَلِّمْ یَکُوْنُ بَرَکَۃً عَلَیْکَ وَعَلَی أَہْلِ بَیْتِکَ‘‘ََ۔ (1)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اے بیٹے ! جب تو گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کر کیونکہ تیرا سلام تیرے اور تیرے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔ (ترمذی)
(۶)’’عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا لَا تَشَبَّہُوْا بِالْیَہُودِ وَلَا بِالنَّصَارَی فَإِنَّ تَسْلِیمَ الْیَہُودِ الْإِشَارَۃُ بِالْأَصَابِعِ وَتَسْلِیمَ النَّصَارَی الْإِشَارَۃُ بِالْأَکُفِّ‘‘۔ (2)
حضرت عمرو بن شعیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے باپ سے اور وہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جوشخص (سلام کرنے میں) غیروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم سے نہیںہے ۔ یہود ونصاری کی مشابہت نہ کرو، یہودیوں کاسلام انگلیوں کے اشارہ سے ہے اور نصاری کا سلام ہتھیلیوں کے اشارہ سے ہے ۔ (ترمذی ، مشکوۃ)
(۷)’’ عَن جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاَل إِنْ لَقِیْتُمُوھُمْ فَلا تُسَلِّمُوا عَلَیْھِمْ‘‘۔ (3)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر تمہاری ملاقات بدمذہبوں سے ہو انہیں سلام نہ کرو۔ (ابن ماجہ)

انتباہ :

(۱)…خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کا بھی جواب دینا واجب ہے اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ زبان سے جواب دے ۔ دوسرے یہ کہ سلام کا جواب لکھ کر بھیج دے ۔ (1) (بہار شریعت)
درمختار اور شامی جلد پنجم ص۲۷۵ میں ہے : ’’ یَجِبُ رَدُّ جَوَابِ کِتَابِ التَّحِیَّۃِ‘‘۔ (2)
(۲)…کسی نے خط میں لکھا کہ فلاں کو سلام کہو تو مکتوب الیہ پر اس سلام کا پہنچانا واجب نہیں اگر پہنچائے گا تو ثواب پائے گا۔
(۳)…کسی نے کہا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا اور اس نے وعدہ کرلیا تو سلام پہنچانا واجب ہے اگر نہیں پہنچائے گا تو گنہگار ہوگا۔ فتاویٰ عالمگیری باب السلام میں ہے :’’ إِذَا أَمَرَ رَجُلًا أَنْ یَقْرَأَ سَلَامَہُ عَلَی فُلانٍ یَجِبُ عَلَیْہِ ذَلِکَ، کَذَا فِی الْغِیَاثِیَّۃِ‘‘۔ (3)
شامی میں ہے :’’ وَالظَّاہِرُ أَنَّ ہَذَا إذَا رَضِیَ بِتَحَمُّلِہَا‘‘۔ (4)
(۴)…کسی نے سلام بھیجا تو اس طرح جواب دے کہ پہلے پہنچانے والے کو پھر اس کو جس نے سلام بھیجا ہے یعنی یوں کہے ۔ ’’ عَلَیْکَ وَعَلَیْہِ السَّلَام‘‘۔ فتاوی عالمگیری جلد پنجم باب السلام میں ہے : ’’مَنْ بَلَّغَ إنْسَانًا سَلَامًا مِنْ غَائِبٍ کَانَ عَلَیْہِ أَنْ یَرُدَّ الْجَوَابَ عَلَی الْمُبَلِّغِ أَوَّلًا، ثُمَّ عَلَی ذَلِکَ الْغَائِبِ، کَذَا فِی الذَّخِیرَۃِ‘‘۔ (5)
شامی میں ہے :’’ وَظَاہِرُہُ الْوُجُوبُ‘‘۔ (6)
٭…٭…٭…٭

Exit mobile version