حکایت نمبر232: سخت گرمی میں نفلی روزے رکھنے والا اَعرابی
حضرت سعید بن ابی عُرْوَہ سے منقول ہے کہ”ایک مرتبہ” حَجَّاج” نامی شخص حج کے ارادے سے نکلا۔ مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ زَادَھُمَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْمًاکے درمیان پانی کے قریب قیام کیا ۔پھر دسترخوان بچھواکر کھانا منگوایا اوراپنے خادم سے کہا: ”جاؤ! دیکھو !آس پاس کوئی شخص نظر آئے تو اسے میرے پاس لے آؤ،تاکہ وہ میرے ساتھ کھاناکھا لے اورمیں اس سے کچھ گفتگو کر لوں۔ ‘ ‘ خادم کسی آدمی کی تلاش میں ادھر ادھر گھومنے لگا ۔بالآخر پہاڑ کے قریب اسے ایک اَعرابی ،بکری کے بالوں کی چادر اوڑھے سویا ہوا نظر آیا ۔ اس نے پاؤں مار کر اعرابی کو جگایا اورکہا:”چلو، تمہیں ہمارا امیر بُلا رہاہے ۔” وہ اَعرابی حَجَّاج کے پاس آیاتو اس نے کہا:” اپنے ہاتھ دھو لو اورمیرے ساتھ کھاناکھاؤ۔ ”اعرابی نے جواب دیا:” تجھ سے پہلے میں ایک ایسی ہستی کی دعوت قبول کر چکا ہوں جو تجھ سے بہتر ہے ۔”
حَجَّاج نے پوچھا:”وہ کون ہے؟”اعرابی نے کہا:”وہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہے ۔ اس نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی میں نے اس کی دعوت قبول کرتے ہوئے روزہ رکھ لیا۔” حَجَّاج نے کہا:” اتنی شدید گرمی میں تو نے روزہ رکھاہے؟” کہا: ”ہاں! میں نے روزِ محشرکی گرمی کے پیشِ نظر روزہ رکھاہے جو آج کے دن سے بہت زیادہ ہو گی ۔” حَجَّاج نے کہا:” تو ابھی کھاناکھالے، کل روزے کی قضا کرلینا۔ ”اعرابی نے کہا:” کیا تم اس بات کی ضمانت دیتے ہو کہ میں کل تک زندہ رہوں گا؟۔” حَجَّاج نے کہا: ”میں بھلااس بات کی ضمانت کیسے دے سکتاہوں؟”اعرابی نے کہا:” اگر تم اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھر مجھے ایسی مدت کی اُمید کیوں دلاتے ہوجس پر تم قادر ہی نہیں ؟”
حَجَّاج نے کہا :” کھاؤ! یہ کھانا بہت عمدہ ہے ۔” اعرابی نے کہا :” نہ تو تُو نے اسے عمدہ کیا ہے اورنہ ہی باورچی نے لیکن عمدہ تو یہ اس وقت ہوگا جب برائی سے بچائے ،اتنا کہہ کر اعرابی وہاں سے چلا گیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)