سفرِ آخرت کاتوشہ تیارکرو۔۔۔۔۔۔!
کہا:”اُسقولیہ” کے بادشاہ نے ایک بہت بڑا لشکر”اَفرولیہ” کی طرف بھیجا۔وہاں تک کا سمندری سفرساٹھ 60) ( دنوں کاتھااورراستے میں کوئی ایسامقام نہ تھاجہاں سے کھانے پینے کی کوئی چیزحاصل کی جاتی۔ اب جتناسامانِ خو ر د و نو ش یہ اپنے ساتھ لے جاتے اسی پرگزارہ کرناپڑتا۔اس لشکرمیں دوکاہن بھی تھے۔ایک نے کہا:”یہ لشکرسات دن تک ”افرولیہ” کامحاصرہ کر کے ، منجنیق کے ذریعے سنگ باری کرتارہے گااورآٹھویں دن انہیں فتح نصیب ہوگی۔”دوسرے کاہن نے کہا:”ایسانہیں ہے بلکہ یہ و ہا ں پرسات دن محاصرہ کریں گے اورآٹھویں دن واپس آجائیں گے۔”لشکروالوں نے جب ان کی یہ باتیں سنیں تولشکرکے سردارآپس میں کہنے لگے: ”ہمیں واپسی کازادِراہ ساتھ لے چلناچاہے یافتح کی اُمیدپرواپسی کے زادِراہ کے بغیرچلناچاہے؟” ایک قوم نے کہا کہ : ”ہمیں اس کاہن کی بات ماننی چاہے جوفتح کی خوش خبری دے رہاہے ،لہٰذازیادہ زادِراہ لے جاکرہمیں اپنے آپ کو تھکانا نہیں چاہے۔” بقیہ لشکروالوں نے کہا:”ہم صرف امیدپراپنے آپ کوہلاکت میں نہیں ڈال سکتے بلکہ ہمیں واپسی کا زادِ راہ بھی احتیا طاً سا تھ لے چلناچاہے۔”چنانچہ ا نہوں نے توآنے جانے کا زادِ راہ ساتھ لے لیا۔ لیکن لشکرکے دوسرے گروہ نے صر ف جانے ہی کاسامان ساتھ لیا۔وہاں پہنچ کروہ مسلسل سات دن تک قلعے کامحاصرہ کئے سنگ باری کرتے( پتھر برساتے ) رہے۔ آٹھویں دن دیوا ر میں بہت بڑاشگاف ہواتولشکراندرداخل ہوگیا، آگے ایک ا ور بہت مضبوط دیوار موجود تھی ۔سات دن ہوچکے تھے آٹھواں دن شروع تھااتنے میں قاصد آیا اورپیغام دیاکہ” بادشاہ فوت ہوگیاہے وا پس چلو۔”یہ خبرسن کرسب واپس ہولئے ۔جولوگ اپنے ساتھ واپسی کا سامان لائے تھے وہ توبخیریت اپنے ملک پہنچ گئے اورجنہوں نے سستی کرتے ہوئے زادِراہ ساتھ نہ لیاتھاوہ ہلاک ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تعدادستَّر ہزار(70,000) تھی۔ اس وقت سے اب تک ان کی حکایت بطورِ عبرت پیش کی جاتی ہے۔
یہ حکایت سنانے کے بعدراہب نے ان تینوں سرداروں کوسمجھاتے ہوئے کہا:”انہی لوگوں کی طرح وہ بھی ہلاک ہو جا تا ہے جوآخرت کے لئے زادِراہ تیارنہیں کرتا۔اورجوزادِراہ تیاررکھتاہے وہ نجات پاجاتاہے۔”سرداروں نے کہا:”آپ کا اندازِتبلیغ بہت اچھاہے ۔آپ کی انفرادی کوشش بہت خوب ہے ۔” راہب نےکہا:”کہیں ایساتونہیں کہ میرے وعظ کی مٹھاس صرف تمہارے کانوں تک محدودہواور دلوں تک نہ پہنچی ہو۔سنو!کیاتم نہیں جانتے کہ جوکتابیں حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام، حضرتِ سیِّدُناداؤد علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام اورحضرتِ سیِّدُناعیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام پرنازل ہوئیں اوردیگرانبیاء کرام علیہم السلام پرجوصحائف نازل ہوئے ان تمام میں یہ بات موجودتھی کہ”تمہیں اسی کی جزاملے گی جوتم نے عمل کئے”پس تم اپنے اعمال میں نظر کرو ۔اپنے بارے میں صحیح فیصلہ کرو!اورمیرے پاس سے ہدایت پانے
والے ہوکرواپس لوٹ جاؤ۔”راہب کی یہ حکیمانہ باتیں سن کروہ تینوں سردارواپس چلے آئے ۔پھرباہم مشورے سے ایک کوملک کاحاکم بنایااورسب اس پرراضی ہوگئے ۔
(اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے مقبول بندوں پررحمت کی خوب برسات فرمائے اورہم سب کی مغفرت فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس عبرت آموزحکایت سے ہمیں یہ درس ملاکہ انسان کوہمیشہ اپنے انجام پرنظررکھنی چاہے ، آنے والے وقت سے پہلے تیاری کرلینی چاہے ۔سمجھ داروہی ہے جوموت سے پہلے موت کی تیاری کرلے اوراس فانی زندگی میں رہ کر ایسے اعمال کرے کہ جن کی بدولت دائمی زندگی میں خوب نعمتیں ملیں۔طویل اُمیدوں کے دھوکے میں آکراعمالِ صالحہ کومُؤَ خَّر (مُ۔أخ۔خَر) یاترک کردیناہرگزعقل مندوں کاشیوہ نہیں۔انسان کوچاہے کہ آج کاکام کل پرنہ چھوڑے ،نیکی کے کام میں ہرگز سستی نہ کرے اوراپنے آپ کوآخرت کی بہتری کے لئے مصروف رکھے ۔ان تمام باتوں پرعمل پیراہونے کے لئے انسان کوایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں فکرِ آخرت اوراعمالِ صالحہ کی خوب ترغیب دلائی جاتی ہو۔الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ !آج کے اس پرفتن دورمیں تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیرغیرسیاسی تحریک”دعوتِ اسلا می ‘ ‘ ہمیں ا یساپاکیزہ اورسنتوں بھراماحول فراہم کرتی ہے کہ اس میں آکردل خودبخوداعمالِ صالحہ کی طرف راغب ہوتااورگناہوں سے نفرت کرنے لگتاہے۔اس پاکیزہ ماحول میں خوفِ خدااورعشقِ مصطفی کی عظیم نعمتیں نصیب ہوتی ہیں۔عمل کاجذبہ بڑھتا اور بدعملی سے نفرت پیداہوجاتی ہے ۔ہمیں چاہے کہ ہم بھی اس مدنی ماحول کواپنالیں اور”دعوتِ اسلامی” کے زیراہتمام سفرکرنے والے ”مدنی قافلوں” میں خوب خوب سفر کریں،اجتماعات میں شریک ہوں اور”مدنی انعامات” پرعمل پیراہوں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ بانئ دعوتِ اسلامی ،امیرِ اہلسنت حضرتِ علامہ مولاناابوبلال محمدالیاس عطارؔقادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کاسایہ ہمارے سروں پر تا دیرقائم رکھے اوردعوتِ اسلامی کودن دُگنی اوررات چُگنی ترقی عطافرمائے۔ )
؎ اللہ کرم ایساکرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو(آمین)!
(آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری اس کوشش کوقبول ومنظورفرمائے ۔اوراس کتاب کوہمارے لئے ذر یعۂ نجات بنائے۔ اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے ہم سب مسلمانوں کاخاتمہ بالخیرفرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن،وَصَلَوَاتُہ، وَسَلَامُہ، عَلٰی
اَشْرَفِ الْمُرْسَلِیْن مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن