صدقۂ فطر کے احکام و مسائل
(۱)’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَأَمَرَ بِہَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ‘‘۔ (1)
حضر ت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے واجب ٹھہرا یا صدقۂ فطرکو غلام ، آزاد ، مرد ، عورت، بچے ، او ر بوڑھے ہر مسلمان پر ، ایک صاع جو یا کھجور ، اور حکم فرمایا کہ نماز (عید)کے لیے نکلنے سے پہلے اس کو ادا کیا جائے ۔ (بخاری، مسلم)
(۲)’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فِی آخِرِ رَمَضَانَ أَخْرِجُوا صَدَقَۃَ صَوْمِکُمْ فَرَضَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذِہِ الصَّدَقَۃَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِیرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ عَلَی کُلِّ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوکٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی صَغِیرٍ أَوْ کَبِیرٍ‘‘۔ (2)
حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے رمضان کے آخر میں لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے روزوں کا صدقہ ادا کرو۔ کیونکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس صدقہ کو ہر مسلمان پر مقرر فرمایا ہے ۔ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا، ہر ایک کی طرف سے ایک صاع کھجور یا جَو یا نصف صاع گیہوں۔ (ابوداود، نسائی)
(۳)’’عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ أَوْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی صُغَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَاعٌمِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ
حضرت عبداللہ بن ثعلبہ یا ثعلبہ بن عبداللہ بن ابوصغیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ ایک صاع گیہوں دو آدمی کی
عَلَی کُلِّ اثْنَیْنِ صَغِیرٍ أَوْ کَبِیرٍ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی أَمَّا غَنِیُّکُمْ فَیُزَکِّیہِ اللَّہُ وَأَمَّا فَقِیرُکُمْ فَیَرُدُّ عَلَیْہِ أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاہُ‘‘۔ (1)
طرف سے کافی ہے خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ ، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت۔ خدائے تعالیٰ اس کی بدولت تمہارے غنی کو پاک کرتا ہے اور فقیر کو اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا کہ اس نے دیا۔ (ابوداود)
(۴)’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُہْرَ الصّیَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِینِ‘‘۔ (2)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم انے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے صدقۂ فطر اس لیے مقرر فرمایا تاکہ لغو اور بے ہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہوجائے اور دوسری طرف مساکین کے لیے خوراک ہوجائے ۔ (ابوداود)
(۵)’’عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُنَادِیًا فِی فِجَاجِ مَکَّۃَ أَلَا إِنَّ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ وَاجِبَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ صَغِیرٍ أَوْ کَبِیرٍ‘‘۔ (3)
حضرت عمر و بن شعیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا پنے باپ سے اور و ہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے ایک شخص کو بھیجا کہ مکہ شریف کی گلیوں میں اعلان کردے کہ صدقۂ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام ، نابالغ ہو یا بالغ۔ (ترمذی)
انتباہ:
(۱)… صدقۂ فطر مالکِ نصاب پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے نکالے جب کہ بچہ مالکِ نصاب نہ ہو اور اگر ہو تو بچہ کا صدقہ اسی کے مال سے ادا کیا جائے ۔ (4) (درمختار، بہارشریعت)
(۲)… صدقۂ فطر کے مسئلے میں مالکِ نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو۔ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامانِ تجارت یا سامان غیر تجارت کا مالک ہو اور مملوکہ چیزیں حاجت اصلیہ سے زائد ہوں۔
(۳)…صدقۂ فطر واجب ہونے کے لیے روزہ رکھنا شرط نہیں، اگر کسی عذر مثلاً سفر ، مرض ، بڑھاپے کی وجہ سے یا معاذ اللہ بلا عذر روزہ نہ رکھا جب بھی واجب ہے ۔ (1) (بہارشریعت)
اور جیسا کہ ردالمحتار جلد دوم ص:۷۶میں ہے : ’’تَجِبُ الْفِطْرَۃُ وَإِنْ أَفْطَرَ عَامِدًا‘‘۔ پھر دو سطر کے بعد ہے : ’’مَنْ أَفْطَرَ لِکِبَرٍ أَوْ مَرَضٍ أَوْ سَفَرٍ یَلْزَمُہُ صَدَقَۃُ الْفِطْرِ‘‘۔ (2)
(۴)…اگر باپ غریب ہو یا مرگیا ہو تو دادا پر اپنے غریب یتیم پوتے ، پوتی کی طرف سے صدقۂ فطر دینا واجب ہے ۔ درمختار باب صدقۃالفطر میں ہے : ’’وَالْجَدُّ کَالْأَبِ عِنْدَ فَقْدِہِ أَوْ فَقْرِہِ‘‘۔ (3)
(۵)…گیہوں، جو ، کھجور اور منقّٰی کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہیں مثلاً چاول، باجرہ اور کوئی غلہ تو آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا۔ (4) (بہارشریعت)
(۶)…عید کے دن طلوعِ فجر کے بعد عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر نکالنا مستحب ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اول ص:۱۸۰میں ہے :’’وَالْمُسْتَحَبُّ لِلنَّاسِ أَنْ یُخْرِجُوا الْفِطْرَۃَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ یَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ الْخُرُوجِ إلَی الْمُصَلَّی کَذَا فِی الْجَوْہَرَۃِ النَّیِّرَۃِ ‘‘۔ (5)
(۷)…ماہِ رمضان اور رمضان سے پیشتر صدقۂ فطر ادا کرنا جائز ہے ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص:۱۷۹میں ہے : ’’وَإِنْ قَدَّمُوہَا عَلَی یَوْمِ الْفِطْرِ جَازَ وَلَا تَفْضِیلَ بَیْنَ مُدَّۃٍ وَمُدَّۃٍ وَہُوَ الصَّحِیحُ‘‘۔ (6) اور درمختار میں ہے : ’’صَحَّ أَدَاؤُہَا إذَا قَدَّمَہُ عَلَی یَوْمِ الْفِطْرِ أَوْ أَخَّرَہُ‘‘۔ (7)
(۸)…صاع کا وزن تین سو اکیاون ۳۵۱ روپیہ بھر ہے یعنی انگریزی سیر سے چار سیر چھ چھٹا نک ایک روپیہ بھر۔ اور نصف صاع ایک سو ساڑھے پچھتر روپیہ بھر ہے یعنی دو سیر تین چھٹانک آٹھ آنہ بھر۔ اس لیے کہ صاع وہ پیمانہ ہے جس میں آٹھ رطل اناج آئے ۔
شرح وقایہ جلد اول ص:۲۳۹میں ہے : ’’اَلصَّاعُ کَیْلٌ یَسَعُ فِیہِ ثَمَانِیَۃ أَرْطَالٍ‘‘۔ (1)
اور ایک رطل نصف مَن ہے ۔ شامی جلد دوم ص:۷۹میں ہے : ’’وَالرِّطْلُ نِصْفُ مَنٍّ‘‘۔ (2)
توصاع وہ پیمانہ ہوا کہ جس میں چار من اناج آئے ۔ ’’ مَن‘‘ کو ’’مُد‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جیسا کہ ردالمحتار جلد دوم ص:۷۹پر ہے ۔ ’’الْمُدُّ وَالْمَنُّ سَوَاء کُلٌّ مِنْہُمَا رُبْعُ صَاعٍ‘‘۔ (3)
اور مَن جس کو مُد بھی کہتے ہیں چالیس استار کا ہوتا ہے اور ہر استارساڑھے چار مثقال ، تو ہر مَن ایک سو اسی مثقال ہوا۔ شرح وقا یہ جلد اول ص:۲۴۰میں ہے : ’’إِنَّ الْمَنَّ أَرْبَعُوْنَ أَسْتَاراً وَالْاَسْتَارُ أَرْبَعَۃُ مَثَاقِیْلَ وَنِصْفُ مِثْقَالٍ فَالْمَنُّ مِئَۃٌ وَّثَمَانُوْنَ مِثْقَالًا‘‘۔ (4)
تو صاع وہ پیمانہ ہوا کہ جس میں ( ۴ مَن x۱۸۰ مثقال= ۷۲۰ مثقال) سات سو بیس مثقال اناج آئے ۔ پھر اناج ہلکے بھاری ہر طرح کے ہوتے ہیں۔ صاع کی تقدیر میں کس اناج کا اعتبار ہے ؟ تو بعض آئمہ نے ماش وعدس یعنی مسور اور اُرد کا اعتبا رکیا ہے ۔ اور صدر الشریعہ صاحبِ شرح وقایہ نے فرمایا کہ ماش وعدس گیہوں سے بھاری ہوتے ہیں لہذا وہ پیمانہ کہ جس میں آٹھ رطل یعنی ۷۲۰ سات سو بیس مثقال ماش وعدس آئے گا چھوٹا ہوگا اور وہ پیمانہ کہ جس میں ۷۲۰ سات سو بیس مثقال گیہوںآئے بڑا ہوگا۔ لہذا زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ گیہوں کا اعتبار کیا جائے ۔ صدرالشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عبارت یہ ہے :
’’ اَلْمَاشُ أَثْقلُ مِن الحِنطَۃِ وَالحنطَۃُ مِنَ الشَّعِیْرِفَالْمِکْیَالُ الَّذِی یَمْلأ بِثَمَانِیَۃ أَرْطَالٍ مِن المج یَمْلأ بِأَقَلَّ مِنْ ثَمَانِیَۃِ أَرْطَالٍ مِنَ الْحِنْطَۃِ الجیدۃِ الْمُکْتَنِزَۃِ فَالأَحوطُ فِیہِ أَن یَقدرَ الصَّاع
بِثَمَانیۃ أَرْطَالٍ مِنَ الْحِنْطۃ الجیدۃِ‘‘(1) (شرح وقایہ، جلد اول، ص ۲۳۹)
اورچونکہ گیہوں جَو سے بھاری ہوتا ہے لہذا وہ پیمانہ کہ جس میں آٹھ رطل یعنی سات سو بیس مثقال جَو آئے بڑا ہوگا۔ اسی لیے علامہ ابن عابدین شامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے صاحبِ شرح وقایہ کی اس احتیاط کو ذکر کرکے فرمایا کہ سب سے زیادہ احتیاط یہ ہے کہ جَو کا اعتبار کیا جائے بلکہ یہ بھی تحریر فرمایا کہ بعض علماء نے حاشیہ زیلعی سے نقل کیا ہے کہ حرم شریف مکہ معظمہ کے مشائخ موجودین و سابقین کا عمل اور فتوی اسی پر ہے کہ صاع کی تقدیر میں جَو کا اعتبار کیا جائے ۔
جیسا کہ ردالمحتار جلد دوم ص:۸۰پر ہے : ’’وَلَکِنْ عَلَی ہَذَا الْأَحْوَطِ تَقْدِیرُہُ بِالشَّعِیرِ وَلِہَذَا نَقَلَ بَعْضُ الْمُحَشِّینَ عَنْ حَاشِیَۃِ الزَّیْلَعِیِّ لِلسَّیِّدِ مُحَمَّد أَمِینٍ مِیرْغَنِیٍّ أَنَّ الَّذِی عَلَیْہِ مَشَایِخُنَا بِالْحَرَمِ الشَّرِیفِ الْمَکِّیِّ وَمَنْ قَبْلَہُمْ مِنْ مَشَایِخِہِمْ وَبِہِ کَانُوا یُفْتُونَ تَقْدِیرُہُ بِثَمَانِیَۃِ أَرْطَالٍ مِنْ الشَّعِیرِ وَلَعَلَّ ذَلِکَ لِیَحْتَاطُوا فِی الْخُرُوجِ عَنِ الْوَاجِبِ بِیَقِینٍ لِمَا فِی مَبْسُوطِ السَّرَخْسِیِّ مِنْ أَنَّ الْأَخْذَ بِالِاحْتِیَاطِ فِی بَابِ الْعِبَادَاتِ وَاجِبٌ ا ہـ فَإِذَا قُدِّرَ بِذَلِکَ فَہُوَ یَسَعُ ثَمَانِیَۃَ أَرْطَالٍ مِنَ الْعَدَسِ وَمِنَ الْحِنْطَۃِ وَیَزِیدُ عَلَیْہَا أَلْبَتَّۃَ بِخِلَافِ الْعَکْسِ فَلِذَا کَانَ تَقْدِیرُ الصَّاعِ بِالشَّعِیرِ أَحْوَطَ‘‘۔ (2)
خلاصہ کلام یہ ہے صاع وہ پیمانہ ہے کہ جس میں ۷۲۰ سات سو بیس مثقال جَو آئیں اسی میں سب سے زیادہ احتیاط ہے اور یہی حرم شریف مکہ معظمہ کے مشائخ کا معمول و مفتی بہ ہے اور مثقال کا وزن ساڑھے چار ماشہ ہے تو صاع و ہ پیمانہ ہوا کہ جس میں ( ۷۲۰ مثقال x ــــ۱ ۲ ۴ =۳۲۴۰) سات سو بیس مثقال یعنی تین ہزار دو سو چالیس ماشے جَو آئیں۔ پھر چونکہ بارہ ماشے کا تولہ ہوا ہے تو صاع وہ پیمانہ ہوا کہ جس میں (۳۲۴۰ ماشے ÷ ۱۲=۲۷۰ تولے ) تین ہزار دو سو چالیس ماشے یعنی ۲۷۰ تولے جَو آئیں۔ اور چونکہ ایک روپیہ کا وزن سوا گیارہ ماشے ہوتا ہے اس لیے صاع وہ پیمانہ ہوا کہ جس میں (۳۲۴۰ ماشے ÷ ــــ۱ ۴ ۱۱ماشے = ۲۸۸ روپیہ بھر) بتیس سو چالیس ماشے یعنی دو سو اٹھاسی روپیہ بھر جَو آئیں۔ اور نصف صاع وہ پیمانہ ہو ا کہ جس میں ایک سو چوالیس روپیہ بھر سے زیادہ
آئے گا۔ پھر چونکہ گیہوں جَو سے بھاری ہوتا ہے تو جس پیمانہ میں ایک سو چوالیس روپیہ بھر جَو آئے گا اسی پیمانہ میں گیہوں ایک سو چوالیس روپیہ بھر سے زیادہ آئے گا۔
اعلی حضرت امام احمد ر ضا فاضل بریلوی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا تجربہ کیا تو وہ پیمانہ کہ جس میں ایک سو چوالیس روپیہ بھر جَو آئے اسی پیمانہ میں ــــ۲۱ ۱۷۵ ایک سو پچھتر روپیہ اٹھنی بھر گیہوں آئے ۔ فتاویٰ رضویہ جلد اول لاہوری ص: ۱۴۵ میں ہے کہ فقیر نے ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۲۷ھ کو نیم صاع شعیری کا تجربہ کیا جو ٹھیک چار رطل جَو کا پیمانہ تھا اس میں گیہوں برابر ہموار مسطح بھر کر تولے تو ایک سو چوالیس روپیہ بھر جَو کی جگہ ایک سو پچھتر روپیہ آٹھ آنہ بھر گیہوںآئے ۔ (1) تو نصف صاع گیہوں صدقہ فطر کا وزن ایک سو پچھتر روپیہ آٹھ آنہ بھر ہوا جو انگریزی سیر سے دو سیر تین چھٹانک اور آٹھ آنے بھر ہے اس لیے کہ انگریزی سیر اسی روپیہ بھر ہے یعنی پورے پچھتر تولے کا ہے (منظر الفتاویٰ) اور نئے پیمانے سے نصف صاع گیہوں کا وزن ۲ کلو گرامـــــــ۴۶۱۶۰۱۲۳ گرام یعنی دو کلو اور تقریبا ۴۷ گرام ہوگا کیونکہ اسی روپیہ بھر کا سیر نو سو تینتیس گرام کا ہوتا ہے ۔ یہیں سے یہ بات متحقق ہوگئی اعلٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ المولیٰ تعالیٰ عنہ کا مسلک غایت احتیاط اور اعلیٰ درجہ تحقیق پرمبنی ہے ۔
٭…٭…٭…٭