سادات سے محبت پردُگناانعام
حضرت سیدنا ابو عبداللہ واقدی قاضی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ عید کے موقع پر ہمارے پاس خرچ وغیرہ کے لئے کچھ بھی رقم نہ تھی ،بڑی تنگدستی کے دن تھے، ان دنوں یحییٰ بن خالدبر مکی حاکم تھا ، عید روز بروز قریب آرہی تھی، ہمارے پاس کچھ بھی نہ تھا، چنانچہ میری ایک خادمہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی: ”عید بالکل قریب ہے اور گھر میں کچھ بھی خرچہ وغیرہ نہیں، آپ کوئی ترکیب کیجئے تا کہ گھر والے عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
خادمہ کی یہ بات سن کر مَیں اپنے ایک تا جر دوست کے پاس گیا اور اس کے سامنے اپنی حالتِ زار بیان کی ۔انہوں نے فورا ًمجھے ایک مہر بند تھیلی دی، جس میں بارہ سو درہم تھے،میں ا نہیں لے کر گھر آیااور وہ تھیلی گھر والوں کے حوالے کردی، گھر والوں کو کچھ ڈھارس ہوئی کہ اب عید اچھی گزر جائے گی ، ابھی ہم نے اس تھیلی کو کھولا بھی نہ تھا کہ میرا ایک دوست میرے پا س آیا جس کا تعلق سادات کے گھرانے سے تھا ،اس نے آکر بتایا:” ان دنوں ہمارے حالات بہت خراب ہیں اور عید بھی قریب آگئی ہے ، گھر میں خرچہ وغیرہ بالکل نہیں ،اگر ہوسکے تو مجھے کچھ رقم قرض دے دو۔” اپنے اس دوست کی بات سن کر میں اپنی زوجہ کے پاس گیا اور اسے صورتحال سے آگا ہ کیا، وہ کہنے لگی: ”اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟” میں نے کہا:” ہم اس طر ح کرتے ہیں کہ آدھی رقم اس سید زادے کو قرض دے دیتے ہیں اور آدھی ہم خرچ میں لے آئیں گے ،اس طر ح دونوں کا گزارہ ہوجائے گا ۔”
یہ سن کر میری زوجہ نے عشقِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میں ڈوبا ہو ا جملہ کہا جس نے میرے دل میں بہت اثر کیا، وہ کہنے لگی:” جب تیرے جیسا ایک عام شخص اپنے دوست کے پاس اپنی حاجت مندی کا سوال لے کر گیا تو اس نے تجھے بارہ سو درہم کی تھیلی عطا کی، اور اب جبکہ تیرے پاس دو عالم کے مختار ،سید الابرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی اولاد میں سے ایک شہزادہ اپنی حاجت لے کر آیا ہے تو تُو اسے آدھی رقم دینا چاہتا ہے کیا تیرا عشق اس بات کو گوارا کرتا ہے؟ یہ ساری رقم اس سید زادے کے قدموں پر نچھاور کر دے ،اپنی زوجہ سے یہ محبت بھرا کلام سن کر میں نے وہ ساری رقم اٹھائی اور بخوشی اپنے دو ست کو دے دی، وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا ۔”
میراوہ سیدزادہ دوست جیسے ہی اپنے گھرپہنچاتواس کے پاس میراوہی تاجردوست آیااوراس سے کہا:”میں ان دنوں بہت تنگ دستی کاشکارہوں،مجھے کچھ رقم اُدھاردے دو۔”یہ سن کراُس سیدزادے نے وہ رقم کی تھیلی میرے اس تا جردوست کودے دی جو میں اسی(تاجر)سے لے کرآیاتھا،جب میرے اس تاجردوست نے وہ رقم کی تھیلی دیکھی توفوراًپہچان گیااورمیرے پاس آکرپوچھنے لگا:”جورقم تم مجھ سے لے کرآئے ہو،وہ کہاں ہے؟”میں نے اسے تمام واقعہ بتایاتووہ کہنے لگا:”اِتِّفاق سے وہی سیدزادہ میرابھی دوست ہے،میرے پاس صرف یہی بارہ سودرہم تھے جومیں نے آپ کودے دیئے،آپ نے اس سیدزادے کودیئے اوراس نے وہ مجھے دے دیئے اس طرح ہم میں سے ہرایک نے اپنے آپ پردوسرے کوترجیح دی اوردوسرے کی خوشی کی خاطراپنی خوشی قربان کردی۔”
ہمارے اس واقعے کی خبر کسی طر ح حاکمِ وقت یحییٰ بن خالد بر مکی کوپہنچ گئی، اس نے فوراً اپنا قاصد بھیجا جس نے میرے پاس آکر یحییٰ بن خالد بر مکی کا پیغام دیا: ”مَیں اپنی کچھ مصروفیات کی بناء پر آپ کی طرف سے غافل رہااور مجھے آپ کے حالات کے بارے میں پتہ نہ چل سکا، اب میں غلام کے ہاتھ دس ہزار دیناربھیج رہا ہوںـ، ان میں سے دو ہزار آپ کے لئے،دو ہزار آپ کے تا جر دوست کے لئے اور دوہزار اس سید زادے کے لئے باقی چار ہزار دینا ر تمہاری عظیم وسعادت مند بیوی کے لئے کیونکہ وہ تم سب سے زیادہ غنی،افضل اور عشق رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پیکر ہے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اے ہمارے پر وردگارعزوجل!ہمیں بھی ان پاکیزہ او رنیک سیرت لوگوں کے صدقے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خوب خیر خواہی کرنے کاجذبہ عطا فرمااور مل جل کر دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)