حکایت نمبر:340 سادات کی دستگیری پر انعام
حج کا پُر بہار موسم تھا، خوش نصیب حُجَّاج اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لئے قافلوں کی صورت میں سوئے حرم رواں دواں تھے۔جو پہلی مرتبہ جارہے تھے ان کی کیفیت کچھ اور تھی جو بار بار زیارتِ حرمینِ شریفین سے مشرَّ ف ہوچکے تھے ان کی کیفیت کچھ اور تھی۔بار بار حاضری دینے کے باوجود دل بھرتا ہی نہیں۔ یہ مُبَارَک سفر ہر سال ہی بہت پیارا ہوتا ہے چا ہے کوئی پہلی بار جائے یا بار بار جائے کسی کی بھی محبت و دیوانگی میں کمی نہیں آتی۔ حُجَّاج کرام کا ایک قافلہ جب عُرُوْ سُ الْبِلاد بغداد شریف پہنچا تو حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مُبَارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دل مچلنے لگا ، تمنائے زیارت نے دل کوبے چین کردیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حُجَّاج کے قافلے کے ہمراہ جانے کا عزمِ مُصَمّم (یعنی پختہ ارادہ )کر لیا اور سفر کا ضروری سامان خرید نے کے لئے پانچ سو دینار لے کر بازار کی جانب روانہ ہو گئے ، راستے میں ایک خاتون ملی جس کی حالت بتا رہی تھی کہ یہ غربت وافلاس کا شکار ہے۔ اس خاتون نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا: ” اے بندۂ خدا! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے، میں سید زادی ہوں، حوادثاتِ زمانہ کے ہاتھوں مجبور ہوکر دستِ سوال دراز کر رہی ہوں۔ میری چند بیٹیاں ہیں ان بیچاریوں کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے کوئی کپڑا نہیں ، آج چوتھا دن ہے ہم ماں بیٹیوں میں سے کسی نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا۔”
سیدزادی کی درد بھری داستان سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دل بھر آیا۔ آپ نے پانچ سو دینار اس کی چادر میں ڈال دیئے اور کہا :” اپنے گھر جلدی سے جاؤ اور یہ رقم اپنے استعمال میں لاؤ! اللہ ربُّ العزَّت تمہارا حامی وناصر ہو۔” وہ غریب سید زادی حمد ِ خداوندی بجالائی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دعائیں دیتی ہوئی اپنے گھرروانہ ہوگئی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” اس سال
میں حج کو نہ جاسکا، حُجَّاج کا قافلہ روانہ ہوگیا اور میں رہ گیا ۔ لیکن مجھے اس سید زادی کی مدد کر نے پر ایسا دِلی سکون ملا کہ اس سے قبل کبھی ایسا سکون نہ ملا تھا ۔حج کی سعادت حاصل کرکے حُجَّاجِ کرام کے قافلے واپس آرہے تھے۔ جب ہمارا قافلہ آیا تو میں نے دل میں کہا: ”مجھے اپنے دوستوں سے مل کر انہیں حج کی مبارک باد دینی چاہے ۔”
چنانچہ، میں اپنے دوستوں کے پاس گیا، میں اپنے جس بھی حاجی دوست سے مل کر حج کی قبولیت کی دعا اور مُبَارَک باد دیتا تو وہ کہتا: ” اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا حج بھی قبول فرمائے اور آپ کی سعی قبول فرمائے ۔”میں جتنے دوستوں سے ملا سب نے مجھے حج کی مبارکباد اور قبولیتِ حج کی دعا دی۔ میں بڑا حیران ہواا ور سوچنے لگا کہ جب میں نے اس سال حج کیا ہی نہیں تو یہ لوگ مجھے کس بات کی مُبَارَک دے رہے ہیں؟ بہر حال میں حیران و متعجب اپنے گھر لوٹ آیا، رات کو سویا تو میری سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔ ہم غریبوں کے آقا ،مدینے والے مصطفی، رسولِ خدا، احمد ِمجتبیٰ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنا نورانی چہرہ چمکاتے ہوئے تشریف لائے، لبہائے مبارَکہ کو جنبش ہوئی، رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے :
”لوگ جو تجھے حج کی مبارکباد دے رہے ہیں اس پر تعجب نہ کر ، تو نے ایک حاجت مند کی مدد کی ، مسکین کو غنی کردیا ، میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے تیری صورت کا ایک فرشتہ پیدا فرمادیا اب وہ ہر سال تیری طر ف سے حج کرتا رہے گا ، اب اگر تو چاہے تو (نفلی) حج کر چاہے نہ کر۔”
؎ جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ ربُّ العزَّت نے اس جہاں میں ہر طر ح کے لوگ پیدا فرمائے، کسی کو غریب بنایا تو کسی کو امیر ی عطا کی ، کسی کو طاقتور بنایا تو کسی کو کمزور،وہ مالکِ لَمْ یَزَل بے نیاز ہے جو چاہے کرے ، ہمیں اس کی رضا پر راضی رہنا چاہے۔ اس نے ہمیں غرباء وفقراء کی مدد کا حکم دیا ہمیں اپنے خالق عَزَّوَجَلَّ کے فرمان پر دل وجان سے عمل کرنا چاہے ، اگر ہم مستحقین کی امداد کرتے رہیں گے تو اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری دنیا وآخرت سنور جائے گی۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دوسروں کامعاون ومدد گار بنائے اور ہمیشہ اپنا محتاج رکھے اپنے علاوہ کسی اور کا محتاج نہ کرے۔)
؎ نہ محتاج کر تو جہاں میں کسی کا
مجھے مفلسی سے بچا میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ!
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)