صبر کی تلقین
محمد بن علی مدائنی سے منقول ہے ، محمد بن جعفر نے ارشاد فرمایا :” یمن کے کسی بادشاہ کا بھائی فوت ہوگیا ۔ توکسی عربی شخص نے اس کی تعزیت کرتے ہوئے اس طرح کہا:”یاد رکھ ! مخلوق ، خالق حقیقی کیلئے ہے ، شکر اسی ذات کا ہے جو انعام کرنے والی ہے ، مصائب وآلام سے بچانے پر وہ قادر ہے ۔ جو ہونا ہو وہ ضرور ہو کر رہتا ہے ۔جب ( موت کا حکم) آگیا تواسے واپس نہیں کیا جاسکتا ۔اور نہ ہی فوت ہونے والے کی واپسی کی کوئی راہ ہے ۔ تجھے ایسی چیز دی گئی ہے جو عنقریب تجھے چھوڑ جائے گی یا تو خود ہی اسے
چھوڑ دے گا ۔ تَو جس کا م کو ضرور بضرور ہونا تھا تو اس کے ہونے کے بعد پریشانی کس بات کی ؟ اور جس بات کے ہونے کی امید ہی نہیں تو پھر اس کی طمع کیوں ؟ اور جس چیز نے عنقریب منتقل جانا ہے یا جس سے تو نے منتقل ہونا ہے تو ا س کے لئے حیلہ کیا کرنا ؟
ہمارے آباؤ اجدادگزرگئے جن کی ہم اولادہیں۔ تو جب اصل ہی ختم ہو جائے تو فرع بھی باقی نہیں رہتی ۔
لہٰذا مصائب وآلام کے وقت سب سے افضل شئے ”صبر کرنا” ہے ۔ در اصل اس دنیا کے رہنے والے ایسے مسافر ہیں جو اپنی سواریوں کو اس دنیا کے علاوہ کسی اورمقام پر ہی اتارتے ہیں۔ تو نعمت ملنے پر شکر، اور تغیر ات زمانہ وحالات کے وقت اللہ عزوجل کے سامنے اس کی رضا کی خاطر اپنا سر تسلیمِ خم کرنا کتنی اچھی بات ہے ۔
جب تو کسی پریشان حال (بے صبرے) کو دیکھے تو اس سے عبرت حاصل کر ۔ اور جب توکوئی پریشانی دیکھے تواسے اس مسئلہ کے حل کیلئے اس کی تہہ تک پہنچنے والے شخص کی طرف لوٹا دے ۔ کیونکہ اس کا تجھ سے زیادہ کون مستحق ہے ۔
اور یادرکھ ! سب سے بڑی مصیبت اپنے پیچھے برے جانشین چھوڑ جانا ہے ۔ پس تو سدھرجا! اس لیئے کہ لوٹنے کا وقت قریب ہے ۔
یا د رکھ ! یقینا تجھ پر انعام واکرام کرنے والے اللہ عزوجل نے ہی تجھے آزمائش میں مبتلا کیا ہے ۔ اسی عطا کرنے والے نے تجھ سے ( اپنی عطا کردہ نعمت ) لے لی ہے۔ مگر اکثر( نعمتیں)تو ( تیرے پاس ) چھوڑدیں۔ لہٰذا اگر تجھے صبر کرنا بھُلادیا گیا ہے، تو پھر شکر کرنے سے تو غافل نہ ہو ۔(اگر ہوسکے تو)ا ن دونوں میں سے کسی کو نہ چھوڑ ۔ اور ایسی غفلت سے بچ جو سلبِ نعمت اور ابدی ندامت وشرمندگی کا باعث ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج ملنے والی چھوٹی مصیبت کے بجائے کل تجھے بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے۔ ہم دنیا میں جس بھی مقصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تو موت او ر مصائب وآلام ہمارے درمیان آکھڑے ہوتے ہیں ۔ ہر گھونٹ اور لقمے کے ساتھ پھندا لگا ہوتا ہے ۔
کوئی بھی نعمت پہلی نعمت کے ختم ہوئے بغیر نہیں پائی جاسکتی ۔ اس دنیا میں زندگی گزار نے والا شخص جو دن بھی گزارتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ اپنی پہلی گزرنے والی زندگی کو ختم کر رہا ہے ۔ان گزشتہ دنوں کانام ونشاں باقی نہیں رہتا بلکہ ختم ہوجاتا ہے ۔ ہمارا گزرنے والا ہر سانس ہمیں فناء کی جانب لے جا رہاہے، تو پھرہم باقی رہنے کی امید کیسے کریں ؟ یہ دن اور رات جس چیز کو بھی بلندی دیتے ہیں تو آخر کار اسے گرانا شروع کردیتے ہیں ۔اور جس شےکو وہ اکٹھا دیں آخر کا ر اسے بکھیر دیتے ہیں ۔ پس تونیک کام اور نیک لوگو ں کو تلاش کر۔ اور یاد رکھ ! بھلائی پہنچانے والا بندہ بھی بھلا ہوتا ہے اور شر پہنچا نے والا شخص شریر ہی ہوتا ہے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)