حضرت سیدنا ابو سلیم الھذلی علیہ رحمۃاللہ الولی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے جو آخری خطبہ دیا و ہ ان کلمات پر مشتمل تھا :تمام تعریفیں اللہ عز و جل کے لئے ہیں اور درود وسلام ہو نبی ئآخر الزماں حضرت سیدنامحمد مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر،
امَّا بعد: اے لوگو! اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں فضول پیدا نہیں فرمایااور نہ ہی تمہارے معاملات یونہی چھوڑ دیئے جائیں گے یعنی تمہارے اُمور نظر انداز نہیں کئے جائیں گے ، بے شک تمہارے لئے ایک دن مقرَّر ہے جس میں تمہارا حساب وکتاب ہو گا اور اس دن اللہ عزوجل تمہارے اعمال کا فیصلہ فرمائے گا، اس دن جو شخص اللہ عزوجل کی رحمت سے محروم رہا اور اس جنت کے حصول سے محروم رہا جس کی چوڑائی زمین وآسمان کے برابر ہے تو خدا عزوجل کی قسم !وہ شدید نقصان اورگھاٹے میں رہا جو تھوڑی چیزوں کو زیادہ کے بدلے خریدتا ہے اور باقی رہنے والی اُخروی نعمتوں کے بدلے فانی (دنیوی نعمتو ں ) کو خریدتا ہے ، اور امن کے بدلے خوف کو تر جیح دیتا ہے، کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ تم جن کی اولاد ہو وہ اس دنیاسے جاچکے اور موت کا مزہ چکھ چکے اسی طرح عنقریب تم بھی اس دارِ فانی سے رخصت ہوجاؤ گے اور تمہاری جگہ تمہاری اولاد آجائے گی اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا ، بالآخر سب کے سب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے، اس دنیا میں جس کی مدتِ حیات ختم ہوجاتی ہے وہ زمین کے گہرے گڑھے میں پہنچ جاتاہے اور تم لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارتے ہو اور وہ ایسی حالت میں قبر میں تنہا ہوتا ہے کہ نہ تو اس کے لئے بستر ہوتاہے نہ تکیہ، پھر تم اسے بے یارو مدد گار چھوڑ کر چلے آتے ہو، اس کے عزیز واقارب اس سے جدا ہوجاتے ہیں ،
اس کا مال ومتاع سب دنیاہی میں رہ جاتا ہے اور اس کامسکن مِٹی کی قبر ہوتی ہے ، اب وہ ہوگا اور اس کے اعمال ہوں گے اور وہ اپنے اچھے اعمال کا محتا ج ہوگا یعنی اسے اپنے کئے ہوئے اچھے اعمال کام آئیں گے باقی تمام دنیاوی معاملات سے اسے کوئی غرض نہ ہوگی جو دنیا وی چیزیں اس نے پیچھے چھوڑیں وہ اسے کچھ نفع نہ دیں گی ،پس اے لوگو ! اللہ عزوجل سے ڈرو اور موت سے پہلے موت کی تیاری کر لو،پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عاجزی کرتے ہوئے فرمایا:” خدا کی قسم! میں اپنے آپ کو تم سب سے زیادہ گناہگار سمجھتا ہوں۔”
اے لوگو! جب بھی مجھے یہ معلوم ہوا کہ تم میں سے کسی کو کوئی حاجت ہے تو میں نے اس کی حاجت پوری کر نے کی بھرپور کوشش کی، اسی طر ح جب بھی تمہیں کسی ایسی چیز کی ضرورت پڑی جو میرے پاس تھی اور میرے اختیار میں تھی تو میں نے اسے کبھی بھی تم سے نہیں روکااور میں نے اس بات کو پسند کیا کہ میں بھی تمہاری ہی طرح زندگی گزاروں اللہ عزوجل کی قسم !اگر میں حکومت وامارت کو ان باتوں کے علاوہ کسی اور غرض کے لئے استعمال کرتا اور حکومت کی وجہ سے دنیاوی عیش وعشرت چاہی ہو تی تو میری زبان اس بیان میں میرا ساتھ نہ دیتی جو میں نے تمہارے سامنے کیا کیونکہ وہ میری حالت سے واقف ہے کہ میں نے حکومت وامارت کو صرف اللہ عزوجل کی مخلوق کی خیر خواہی کے لئے ہی استعمال کیا اور قرآن کریم ہمارے درمیان موجود ہے جو ہمیں سچاقانون بتاتا،ہماری رہنمائی فرماتا، ہمیں اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتا ہے اور اس کی نافرمانی سے روکتا ہے۔
حضرت سیدنا ابوسلیم الھذلی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :” اتنا خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی چادر اپنے منہ پر رکھی اور رونے لگے، روتے روتے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہچکیاں بندھ گئیں اور آپ اتنا روئے کہ لوگوں نے بھی رونا شروع کر دیا اور یہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا آخری خطبہ تھا۔ ”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
ہزارو ں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا