حکایت نمبر483: رعایا کی خبرگیری کا انوکھا واقعہ
حضرتِ سیِّدُنا اَسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں: ”میں ایک رات امیر المؤمنین ،خلیفۃالمسلمین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا۔ آبادی سے باہرآگ کی روشنی نظر آئی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اے اَسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم! شاید وہاں کوئی قافلہ ٹھہرا ہوا ہے، آؤ! وہاں چلتے ہیں، شاید! کسی کو کوئی حاجت ہو۔” وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت نے آگ روشن کرکے دیگچی چولہے پر رکھی ہوئی ہے اور اس کے قریب ہی چھوٹے چھوٹے بچے بلند آواز سے رورہے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:” اے روشنی والو!(۱) اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم” عورت نے کہا:”خیر وسلامتی کے ساتھ آ جاؤ ۔” امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریب جا کر پوچھا: ”تمہارا کیا معاملہ ہے؟ ”عورت نے کہا:” رات اور سردی کی وجہ سے ہم نے آگ روشن کر لی۔” پوچھا:” یہ بچے کیوں رو رہے ہیں ؟”کہا:” بھوک کی وجہ سے۔” فرمایا: ”اس دیگچی میں کیا ہے ؟”عورت نے غمگین ہوکر کہا:” ہمارے پاس کھانے کو کوئی چیز نہیں،مَیں نے دیگچی میں پانی ڈال کر چولہے پر رکھ دی ہے تاکہ اسے دیکھ کر بچوں کو کچھ سکون ملے اور وہ سو جائیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے اورامیر المؤمنین کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے۔ ہمارے خلیفہ حضرتِ عمر کو اللہ عَزَّوَجَلَّ پوچھے گا۔” یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی !عمرکوکیا معلوم! تمہارا کیا حال ہے؟” کہا: ”وہ ہمارا خلیفہ ہو کر بھی ہم سے بے خبرہے؟”
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تم یہیں ٹھہرنا، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں کچھ ہی دیر میں واپس آتا ہوں۔”چنانچہ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گودام میں آئے ،ایک بوری میں جَو کا آٹا، چربی اور گھی وغیرہ ڈال کر مجھ سے فرمایا: ”اے اسلم! یہ بوری میری پیٹھ پر رکھو۔” میں نے کہا:” حضور! غلام حاضر ہے، یہ بوری میں اٹھاؤں گا۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: ”جو کہا جارہا ہے اس پر عمل کرو اور بوری میری پیٹھ پر لاد دو۔” میں نے کہا:” حضور !میں اُٹھا لیتا ہوں۔” فرمایا: ”کیا قیامت کے دن بھی تو میرا وزن اٹھا کر چلے گا؟ جلدی کر یہ بوری میری پیٹھ پر رکھ دے ۔” میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بوری آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیٹھ پر رکھ دی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلے اور عورت کےـ پاس پہنچ کر بوری اُتارکر زمین پر رکھ دی۔ پھر جو کا آٹا، چربی اور دیگر اشیاء ہانڈی میں ڈال کر خود ہی اسے ہلاتے رہے اور خود ہی چولہے میں پھونک مارتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ امتِ مسلمہ کا عظیم خلیفہ، ایک غریب وبے سہار ا عورت اور اس کے بچوں کے لئے اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کر رہا ہے۔
اور دُھواں اس کی گَھنی داڑھی سے گزر رہا ہے۔ میں حیرت کی تصویر بنے یہ منظردیکھ رہا تھا۔ جب کھانا تیا ر ہوگیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ سے برتن میں ڈالا اور اسے ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا :”زیادہ گرم کھانا بچوں کو نقصان دے گا۔” جب کھانا ٹھنڈا ہو گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”میں تمہیں کھانا ٹھنڈا کر کے دیتا ہوں،اب تم اپنے ننھے منے بچوں کو کھلاؤ اور خود بھی کھاؤ ۔” امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھوں سے انہیں کھانا دیتے رہے یہاں تک کہ وہ سب سیر ہو گئے ۔ پھر عورت نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے جزائے خیر عطا فرمائے ! تُوامیرالمومنین سے زیادہ خلافت کا حق دار ہے ” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بند ی!امیر المؤمنین کے بارے میں اچھا کلام کر اور اچھا گمان رکھ۔تو جب بھی امیرالمؤمنین کے پاس آئے گی مجھے وہیں پائے گی میں ضرور تیر ی سفارش کروں گا۔” عورت کومعلوم نہ تھا کہ امیرالمؤمنین اس کے سامنے موجود ہے ۔ اس نے پوچھا:” اے نیک دل انسان !اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے، تو کون ہے؟”وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دعائیں دیتی رہی اور پوچھتی رہی ، لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے متعلق کچھ نہ بتایا پھر کچھ دورجا کر چوپایوں کی طرح چار زانوں بیٹھ گئے اور ایسی آوازیں نکالنے لگے کہ بچے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودیکھ کر خوش ہو گئے۔
حضرتِ سیِّدُنا اَسلم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں کہ”میں نے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حالت دیکھی تو متعجب ہو کر کہا: ”اے مسلمانوں کے عظیم خلیفہ !آپ کی شان اس سے بہت زیادہ بلند ہے، یہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیسی حالت بنالی ہے؟” فرمایا:”خاموش ہوجاؤ! میں نے ان ننھے مُنّے بچوں کو بھوک سے روتادیکھا تھا اب مجھے اس وقت تک سکون نہیں ملے گا جب تک انہیں ہنستا نہ دیکھ لوں۔” بچے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب آکر کھیلنے اور ہنسنے لگے، ان کا دل خو ش ہو گیا ۔پھرجب وہ سوگئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا ۔ پھر فرمایا:” اے اَسلم !بھوک نے ان بچوں کو رُلادیا تھا ،ان کو روتا دیکھ کر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ میں اس وقت تک نہ جاؤں گا جب تک انہیں ہنستا نہ دیکھ لوں۔ اب میرے دل کو سکون مل گیا ۔آؤ! واپس چلیں۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
؎ نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا
ملا تقدیر سے حاجت روا فاروقِ اعظم(رضي اللہ عنہ)سا
مراد آئی، مرادیں ملنے کی پیاری گھڑی آئی
ملا حاجت روا ہم کو درِ سلطانِ عالم صلي اللہ عليہ وسلم سا
تیرے جودوکرم کا کوئی اندازہ کرے کیوں کر
تیرا اِک اِک گدا فیض وسخاوت میں ہے حاتم سا
(پیارے اسلامی بھائیو! اسلام اور اس کے ماننے والے سب سے اعلیٰ ہیں ،روئے زمین پر خیر خواہی کی ایسی عظیم مثال اسلام کے علاوہ اور کسی مذہب میں ہرگز نہ ملے گی۔ مسلمانوں کے علاوہ کائنات میں ایسا تاریخی واقعہ کہیں نہ ملے گا کہ بادشاہ ہو کر خود ہی اپنی کمر پر بوری لادے اور پھر ایک غریب عورت اور اس کے بچوں کی دل جوئی کے لئے اپنے آپ کو ان کے
لئے سواری بنائے ۔ یہ سب خوبیاں صرف اور صرف مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ دین اسلام ہی ایسی عاجزی وتواضع اور عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے۔یہ سب نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تعلیم وتربیت کا نتیجہ ہے کہ گلشنِ اسلام میں خلفاء راشدین جیسے گلِ بے مثال کھِلے ،جنہوں نے اپنی خوشبو سے سارے عالم کو مہکا دیا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر کروڑہاکروڑ رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔یہ جملہ آپ کی کمالِ فصاحت پردلالت کرتا ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کویَا اَصْحَابَ النَّاریعنی اے آگ والو!نہ کہابلکہ یَا اَصْحَابَ الضَّوء یعنی اے روشنی والو!کہا۔