حکایت نمبر330: رحمتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی برسات
حضرتِ سیِّدُنا اُبی بن کَعْب حَارِثِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:” ایک مرتبہ میں اپنے گمشدہ اونٹوں کو تلاش کرنے کے لئے نکلا تو اپنے بر تنوں کو دودھ سے بھر لیا پھر میں نے دل میں کہا :” یہ میں نے اچھا نہیں کیا ، سارے برتن دودھ سے بھر لئے لیکن وضو کے لئے پانی وغیرہ بھرا ہی نہیں، میرا یہ عمل غیر منصفانہ ہے (یعنی اس میں انصاف نہیں) اس خیال کے آتے ہی میں نے برتنوں کو دودھ سے خالی کیا اور پانی بھر لیا۔ پھر اونٹوں کی تلاش میں چل دیا۔ میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے ایسا کرم فرمایاکہ جو برتن وضو کے لئے بھر ے تھے ان میں تو پانی ہی رہا لیکن جو پینے کے لئے بھرے تھے وہ بھی سب دودھ سے بھرگئے ۔میں تین دن اونٹوں کی تلاش میں رہا اور تینوں دن مجھ پر اسی طرح رحمتِ خداوندی کی بر سات ہوتی رہی ۔ پھر میں دریا کی طرف گیا تو ایک آواز سنائی دی:
” اے ابوکَعْب! بھنا ہوا گوشت چاہے یا دودھ ہی بہتر ہے؟ بے شک وہی پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ بھوک و پیاس سے نجات دینے والا ہے۔” پھر میں اپنی قوم کی طرف آیا اور انہیں یہ واقعہ بتایا تو قبیلہ بنوقَنان کے سردار علی بن حَارِث نے کہا: ”میرا خیال ہے کہ جو کچھ توکہہ رہا ہے یہ بس کہنے کی حدتک ہے ۔” میں نے کہا:” اللہ عَزَّوَجَلَّ حقیقتِ حال کو بہتر جانتا ہے۔” پھر میں اپنے گھر آیا اور سوگیا۔نمازِ فجر کے وقت کسی نے میرے دروازے پر دستک دی میں باہر آیا تو سامنے قبیلہ بنو قنان کے سردار علی بن حَارِث کو پایا۔میں نے کہا:” اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے حکم فرمایا ہوتا تومیں خود حاضر ہوجاتا ،آپ نے کیوں تکلیف کی ؟”کہا:” میں اس بات کا زیادہ حق دار ہوں کہ تمہارے پاس چل کر آؤں ، سنو! آج رات جب میں سویا تو کسی نے میرے خواب میں آکر کہا: ”تو وہی ہے نا جس نے اس شخص کی تکذیب کی جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں او ر عطاؤں کا تذکرہ کرتا ہے۔”میری توبہ ! میں آئندہ کبھی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا ؤں اور نعمتوں کا ذکر کرنے والے کی باتو ں میں شک نہیں کروں گا ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)