راہِ علم کی مشقتوں میں صبرپرانعام

راہِ علم کی مشقتوں میں صبرپرانعام

حضرت سیدنا ابو الحسن فقیہہ صفار علیہ رحمۃاللہ الغفّار فرماتے ہیں:”ہم مشہورمحدث حضرت سیدنا حسن بن سفیان النسوی علیہ رحمۃاللہ القوی کی خدمت بابرکت میں رہا کرتے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی علمیت کا ڈنکا ملک بھر میں بج رہاتھا، لوگ تحصیلِ علم کے لئے دور دراز سے سفر کرکے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضرہوتے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے احادیث سن کرلکھ لیتے، الغرض آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے دور کے مشہورومعروف محدث اورفقیہہ تھے اور آپ کے کاشانہ اطہر پر طالب علموں کا ہجوم لگا رہتا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان علم دین کے متوالوں کو احادیث مبارکہ لکھو اتے اورانہیں فقہ کے مسائل سے آگا ہ کرتے ۔
ایک مرتبہ جب ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس ِعلم میں حاضر ہوئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حدیث لکھوانے کی بجائے لوگو ں سے فرمایا:” پہلے آج تم لوگ توجہ سے میری بات سنو اس کے بعد تمہیں حدیث لکھواؤں گا، تمام لوگ بڑی توجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بات سننے لگے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”اے دین کا علم سیکھنے کے لئے دور دراز سے سفر کی صعوبتیں اور تکالیف جھیل کر آنے والو! بے شک میں جانتا ہوں کہ تم خوب ناز ونعم میں پلے ہو اور اہلِ فضیلت میں سے ہو، تم نے دین کی خاطر

اپنے اہل وعیال او ر وطنوں کو چھوڑا(یہ یقینا تمہاری قربانی ہے) لیکن خبر دار! تمہارے دل میں ہر گز یہ خیال نہ آئے کہ تم نے جو سفر کی مشقتیں اور تکالیف بر داشت کی ہیں اور حصولِ علم دین کے لئے اپنے اہل وعیال سے دوری اختیار کی ہے اور بہت سی خواہشوں کوقربان کیا مگر ان تمام مشکلات پر صبر کر کے تم نے علم دین سیکھنے کا حق ادا نہیں کیاکیونکہ تمہاری تکلیفیں دین کی راہ میں بہت کم ہیں۔ آؤ میں تمہیں اپنے زمانہ طالب علمی کی کچھ تکالیف سناتا ہوں تا کہ تمہیں بھی تکالیف پر صبر کرنے کی ہمت ورغبت ملے۔
سنو! جب مجھے علم دین سیکھنے کا شوق ہوا تو اس وقت میں عالمِ شباب میں تھا، میری شدید خواہش تھی کہ میں حدیث وفقہ کا علم حاصل کر وں۔ چنانچہ ہم چند دوست حصول ِعلم دین کے لئے مصر کی طرف روانہ ہوئے اورہم نے ایسے اساتذہ اور محدثین کی تلاش شرو ع کردی جو اپنے دور کے سب سے زیادہ ماہر حدیث اور سب سے بڑے فقیہہ اور حافظ الحدیث ہوں، بڑی تلاش کے بعد ہم اس زمانے کے سب سے بڑے محدث کے پاس پہنچے وہ ہمیں روزانہ بہت کم تعداد میں ا حادیث اِملاء کرواتے (یعنی لکھواتے) وقت گزر تا رہا یہاں تک کہ مدت طویل ہوگئی اور ہمارا ساتھ لایا ہوا نان ونفقہ بھی ختم ہونے لگا۔ جب سب کھانا وغیرہ ختم ہوگیا تو ہم نے اپنے زائد کپڑے اور چادریں وغیرہ فروخت کیں اور کچھ کھانا وغیرہ خریدا پھر جب وہ بھی ختم ہوگیا تو فاقوں کی نوبت آگئی۔ ہم سب دوست ایک مسجد میں رہا کرتے تھے، کوئی ہماری مشقتو ں اور تکالیف سے واقف نہ تھا اور نہ ہی ہم نے کبھی اپنی تنگدستی اور غربت کی کسی سے شکایت کی، ہم صبر وشکر سے علمِ دین حاصل کرتے رہے، اب ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ رہا بالآخر ہم نے تین دن اور تین راتیں بھوک کی حالت میں گزار دیں۔ ہماری کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ ہم حرکت بھی نہ کرسکتے تھے۔ چوتھے دن بھوک کی وجہ سے ہماری حالت بہت خراب تھی ،ہم نے سوچاکہ اب ہم ایسی حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں سوال کرنا جائز ہے کیوں نہ ہم لوگوں سے اپنی حاجت بیان کریں تا کہ ہمیں کچھ کھانے کو مل جائے لیکن ہماری خودداری اور عزت نفس نے ہمیں اس پرآمادہ نہ ہونے دیاکہ ہم لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور اپنی پریشانی ان پر ظاہر کریں، ہم میں سے ہر شخص اس بات سے انکار کرنے لگا کہ وہ لوگو ں کے سامنے ہاتھ پھیلائے لیکن حالت ایسی تھی کہ ہم سب قریب المرگ تھے اور مجبور ہو گئے تھے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ ہم قرعہ ڈالتے ہیں جس کانام آگیا وہی سب کے لئے لوگو ں سے کھانا طلب کریگا تا کہ ہم اپنی بھوک ختم کرسکیں جب سب کے نام لکھ کر قرعہ ڈالا گیا توقرعہ میرے نام نکلا، چنانچہ میں بادِلِ نخواستہ لوگوں سے اپنی حاجت بیان کرنے کے لئے تیار ہوگیا لیکن میری غیرت اس بات کی اجازت نہ دے رہی تھی پس میں عزت نفس کی وجہ سے لوگوں کے پاس مانگنے کے لئے نہ جاسکا اور میں نے مسجد کے ایک کونے میں جا کر نماز پڑھنا شروع کردی اوربہت طویل دو رکعت نماز پڑھی پھر اللہ عزوجل سے اس کے پاکیزہ اور بابرکت ناموں کے وسیلے سے دعا کی کہ وہ ہم سے اس پریشانی اور تکلیف کو دور کردے اور ہمیں

اپنے علاوہ کسی کا محتاج نہ بنائے۔ ابھی میں دعا سے فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ مسجد میں ایک حسین وجمیل نوجوان داخل ہوا ۔اس نے نہایت عمدہ کپڑے پہنے تھے، اس کے ساتھ ایک خادم تھا جس کے ہاتھ میں رومال تھا۔ اس نوجوان نے مسجد میں داخل ہوتے ہی پوچھا:” تم میں سے حسن بن سفیان(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کون ہے ؟ یہ سن کر میں نے سجدے سے سر اٹھایا اور کہا:”میرانام حسن بن سفیان ہے، تمہیں مجھ سے کیا کام ہے ؟” وہ نوجوان بولا:”ہمارے شہر کے حاکم ”طولون” نے تمہیں سلام بھیجا ہے اور وہ اس بات پر معذرت خواہ ہے کہ تم ایسی سخت تکلیف میں ہو اوراسے معلوم ہی نہیں کہ تمہاری حالت فاقوں تک پہنچ چکی ہے، ہمارا حاکم اپنی اس کوتاہی پر آپ لوگوں سے معافی کاطلبگار ہے،اس نے آپ کے لئے یہ کھانا بھجوایا ہے،کل وہ خود آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت کریگا، برائے کرم! آپ یہ کھانا قبول فرما لیں، پھر اس نوجوان نے کھانا اور کچھ تھیلیاں ہمارے سامنے رکھیں جن میں ہم سب احباب کے لئے ایک ایک سو دینار تھے ، ہم سب یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔
میں نے اس نوجوان سے کہا: ”یہ سب کیا قصہ ہے او رتمہارے حاکم کو ہمارے بارے میں کس نے خبر دی ہے؟”تووہ نوجوان کہنے لگا:”میں اپنے حاکم کا خادم خاص ہوں۔آج صبح جب میں اس کی محفل میں گیا تو اس کے پاس اور بھی بہت سے خدام اور درباری موجود تھے ، کچھ دیر بعد ہمارے حاکم”طولون” نے کہا:” میں کچھ دیر خلوت چاہتا ہوں لہٰذا تم سب یہاں سے چلے جاؤچنا نچہ ہم سب اسے تنہا چھوڑکر اپنے اپنے گھروں کی طر ف پلٹ گئے ،میں گھر پہنچا اور ابھی میں بیٹھا بھی نہ تھا کہ امیر طولون کا قاصد میرے پاس آیا، اس نے آتے ہی کہا :” تمہیں امیر طولون بلا رہے ہیں، جتنا جلدی ہوسکے ان کی بارگاہ میں حاضرہوجاؤ ۔”میں بہت حیران ہوا کہ ابھی تو وہاں سے آیاہوں پھر ایسی کیا بات ہوگئی کہ مجھے طلب کیا گیا ہے بہر حال میں جلدی سے حاضر دربار ہوا جب میں اس کے کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ اکیلا ہی کمرے میں موجود ہے۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے پہلو پر رکھا ہوا ہے اور شدید تکلیف کی حالت میں ہے۔ امیر طولون کے پہلو میں شدید درد ہو رہا تھاجیسے ہی میں ان کے پاس پہنچا تو مجھ سے کہنے لگے:”کیا تم حسن بن سفیان اور ان کے رفیق طلبا ء کو جانتے ہو ؟” میں نے عرض کی:” نہیں۔”
توکہنے لگے:”فلاں محلہ کی فلاں مسجد میں جاؤ، یہ کھانا اور رقم بھی لے جاؤ اور بصد احترام ان لوگوں کی بارگاہ میں پیش کرنا، وہ دین کے طالب علم تین دن اورتین راتوں سے بھوکے ہیں،او رمیری طرف سے ان سے معذرت کرنا کہ میں ان کی حالت سے ناواقف رہا حالانکہ وہ میرے شہر میں تھے میں اپنی اس حرکت پر بہت شرمندہ ہوں،کل میں خود ان کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معافی مانگوں گا۔”اس نوجوان نے ہمیں بتایاکہ جب میں نے امیر طولون سے یہ باتیں سنیں تو میں نے عرض کی :”حضور! آخر کیا واقعہ پیش آیا ہے اور آپ کو یہ کمر کی تکلیف یکدم کیسے ہوگئی حالانکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے؟”

امیر طولون نے مجھے بتاياکہ ”جب تم لوگ یہاں سے چلے گئے تو میں آرام کے لئے اپنے بستر پر لیٹا،ابھی میری آنکھیں بند ہی ہوئی تھیں کہ میں نے خواب میں ایک شہسوار کو دیکھا جو ہوا میں اس طرح اڑتاآرہا تھا جیسے کوئی شہسوار زمین پر چلتا ہے، اس کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ۔مجھے اس کی یہ حالت دیکھ کر بڑا تعجب ہوا ، وہ اڑتا ہوا میرے دروازے پر آیا پھر گھوڑے سے اترا اور نیزے کی نوک میرے پہلو میں رکھ دی اور کہنے لگا:” فوراً اُٹھو اور حسن بن سفیان اور ان کے رفقاء کو تلاش کرو، جلدی اُٹھو ، جلدی کرو ، وہ دین کے طلبا ء راہِ خدا عز وجل کے مسافر تین دن سے بھوکے ہیں اور فلاں مسجد میں قیام فرماہیں۔”
میں نے اس پر اسرار شہسوار سے پوچھا: ”آپ کون ہیں ؟” اس نے کہا:” میں جنت کے فرشتو ں میں سے ایک فرشتہ ہوں ،اور تمہیں ان دین کے طلباء کی حالت سے خبردار کرنے آیا ہوں، فوراً ان کی خدمت کا انتظام کرو۔” اتنا کہنے کے بعد وہ سوار میری نظر وں سے اوجھل ہوگیا اور میری آنکھ کھل گئی بس اس وقت سے میرے پہلومیں شدید درد ہو رہا ہے۔ تم جلدی کرو اور یہ سارا مال اور کھانا وغیرہ لے کران دین کے طلبا ء کی خدمت میں پیش کر دو تاکہ مجھ سے یہ تکلیف دور ہوجائے۔
حضرت سیدنا حسن بن سفیان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” اس نوجوان سے یہ باتیں سن کر ہم سب بڑے حیران ہوئے اور اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا اور اس رحیم وکریم مالک کی عطا پر سربسجود ہوگئے ۔
پھر ہم سب دوستوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ابھی رات ہی کو ہمیں اس جگہ سے کوچ کرجاناچاہے ورنہ ہمارا واقعہ لوگو ں میں مشہور ہوجائے گا اور حاکم شہر ہماری حالت سے واقف ہو کر ہمارا ادب واحترام کریگا ،اس طرح لوگو ں میں ہماری نیک نامی ہوجائے گی، ہوسکتا ہے پھر ہم ریا کاری او رتکبر کی آفت میں مبتلا ہوجائیں۔ ہمیں لوگو ں سے عزت افزائی نہیں چاہے، ہمیں تو اپنے رب عزوجل کی خوشنودی چاہے۔ ہم اپنا عمل صرف اپنے مالک حقیقی کے لئے ہی کرنا چاہتے ہیں، لوگو ں کے لئے ہم عمل کرتے ہی نہیں اور نہ ہی ہمیں یہ بات پسند ہے کہ ہمارے اعمال سے لوگ واقف ہوں۔ چنانچہ ہم سب دوستوں نے راتوں رات وہاں سے سفر کیا، اس علاقے کوخیر باد کہا ،اور ہم مختلف علاقوں میں چلے گئے۔علمِ دین کی راہ میں ایسی مشقتوں اور تکالیف پر صبروشکر کرنے کی وجہ سے ہم میں سے ہر ایک اپنے دور کا بہترین محدث اور ماہر فقیہہ بنا اور علم دین کی بر کت سے ہمیں بارگاہ خداوندی عزوجل میں اعلیٰ مقام عطا کیا گیا۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ حَمْدًاکَثِیْرًا۔
پھر جب صبح امیر طولون اس محلے میں آیا اور اسے معلوم ہوا کہ ہم یہاں سے جاچکے ہیں تو اس نے اس تمام محلے کو خریدا اور وہاں ایک بہت بڑا جامعہ بنواکراسے ایسے طالب علموں کے لئے وقف کردیا جووہاں دین کا علم سیکھیں، پھر اس نے تمام طلباء کی خوراک اور دیگر ضروریات اپنے ذمہ لے لیں اور سب کی کفالت خود ہی کرنے لگاتاکہ آئندہ کسی طالب علم کوکبھی ایسی پریشانی
نہ ہو جیسی ہمیں ہوئی تھی ،ہمیں جو سعادتیں ملیں وہ سب علم دین کی برکت اور ہمارے یقین کامل کا نیتجہ تھیں۔ ہمیں اپنے رب کریم پر مکمل بھروسہ ہے وہ اپنے بندوں کو بے یار ومدد گار نہیں چھوڑتا، وہ ہم سب کا والی ومالک ہے۔”
(اللہ عزوجل تمام طالب علموں کوخود داری اور یقین کامل کی دولت نصیب فرمائے اور ان کی خدمت کرنے والوں کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)

Exit mobile version