قربانی کے ضروری مسائل
(۱)’’عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا ہَذِہِ الْأَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالُوا فَمَا لَنَا فِیہَا یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوا فَالصُّوفُ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنْ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ‘‘۔ (1)
حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرات ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا اس سے ہم کو ثواب ملے گا۔ ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے عرض کیا اور اون یارسول اللہ! تو آپ نے فرمایا کہ اون کے ہر بال میں بھی ایک نیکی ملے گی۔ (احمد، ا بن ماجہ)
(۲)’’عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَی اللَّہِ مِنْ إِہْرَاقِ الدَّمِ وَإِنَّہُ لَیَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُونِہَا وَأَشْعَارِہَا وَأَظْلَافِہَا وَإِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللَّہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ أَنْ یَقَعَ بِالْأَرْضِ ‘‘۔ (2)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ قربانی کے ایام میں ابن آدم کا کوئی عمل خدائے تعالی کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے )سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں، کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدائے تعالی کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
(۳)’’ عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأَیْتُ عَلِیًّا یُضَحِّی بِکَبْشَیْنِ فَقُلْتُ لَہُ مَا ہَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِی أَنْ أُضَحِّیَ عَنْہُ فَأَنَا أُضَحِّی عَنْہُ‘‘۔ (1)
حضرت حنش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ کو دو دنبے ذبح کرتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوںنے فرمایا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے مجھے وصیتفرمائی ہے
کہ میں حضور کی جانب سے قربانی کیا کروں تو میں ( دوسرا دنبہ حضور کی جانب سے ) قربانی کررہا ہوں۔ (ابوداود)
(۴)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ وَجَدَ سَعَۃً وَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا‘‘۔ (2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب ہر گز نہ آئے ۔ (ابن ماجہ)
(۵)’’ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَیْتُمْ ہِلَالَ ذِی الْحِجَّۃِ وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یُضَحِّیَ فَلْیُمْسِکْ عَنْ شَعْرِہِ وَأَظْفَارِہِ‘‘۔ (3)
حضرت اُم سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ جب تم بقرعید کا چاند دیکھو اور تم میں کا کوئی قربانی کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ بال منڈانے ، ترشوانے اور ناخن کٹوانے سے رکا رہے ۔ (مسلم)
اِنتباہ :
(۱)…قربانی کے مسئلے میں صاحبِ نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامانِ تجارت یا سامانِ غیر تجارت کا مالک ہو اور مملوکہ چیزیں حاجت اصلیہ سے زائد ہوں۔
(۲)…جو مالکِ نصاب اپنے نام سے ایک بار قربانی کرچکا ہے اور دوسرے سال بھی وہ صاحبِ نصاب ہے تو پھر اس پر اپنے نام سے قربانی واجب ہے اور یہی حکم ہر سال کا ہے ۔
حدیث میں ہے ۔ ’’إِنَّ عَلَی کُلِّ أَہْلِ بَیْتٍ فِی کُلِّ عَامٍ أُضْحِیَّۃً‘‘۔ (1) (ترمذی)
(۳)…اگر کوئی صاحبِ نصاب اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے دوسرے کی طرف سے کردے اور اپنے نام سے نہ کرے تو سخت گنہ گار ہوگا لہذا اگر دوسرے کی طرف سے بھی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ایک دوسری قربانی کا انتظام کرے ۔
ٍ (۴)…بعض لوگوں کا جو یہ خیال ہے کہ’’ اپنی طرف سے زندگی میں صرف ایک بار قربانی واجب ہے ‘‘ شرعاً غلط اور بے بنیادہے اس لیے کہ مالکِ نصاب پر ہرسال اپنے نام سے قربانی واجب ہے ۔
(۵)…دیہات میں دسویں ذی الحجہ کو طلوعِ صبح صادق کے بعد ہی سے قربانی کرناجائز ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ سورج نکلنے کے بعد کرے ۔ فتاوی عالمگیری جلد پنجم مصری ص۲۶۰ میں ہے : ’’ وَالْوَقْتُ الْمُسْتَحَبُّ لِلتَّضْحِیَۃِ فِی حَقِّ أَہْلِ السَّوَادِ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ‘‘۔ (2)
(۶)…شہر میں نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں۔ (3) (بہار شریعت)
(۷)… شہری آدمی کو قربانی کاجانور دیہات میں بھیج کر نماز عید سے پہلے قربانی کرا کے گوشت کو شہر میں منگالینا جائز ہے ۔ درمختار مع ردالمحتار جلد پنجم ص۲۰۹ میں ہے ۔ ’’حِیلَۃُ مِصْرِیٍّ أَرَادَ التَّعْجِیلَ أَنْ یُخْرِجَہَا لِخَارِجِ الْمِصْرِ فَیُضَحِّی بِہَا إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ‘‘۔ (4)
(۸)… قربانی کا چمڑا یا گوشت یا اس میں کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کواجرت میں دینا جائز نہیں۔
درمختار میں ہے : ’’ لَا یُعْطَی أَجْرُ الْجَزَّارِ مِنْہَا‘‘ ۔ (5)
(۹)…قربانی کا گوشت کا فر کو دینا جائز نہیں۔ (6)
(۱۰)…قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو اور اپنا داہنا پائوں اس کے پہلو پر رکھیں اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھیں۔
’’ إنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ إنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ پھر أَللَّہُمَّ مِنْک وَلَکَ بِسْمِ اللَّہِ اَللَّہُ أَکْبَرُ ‘‘ پڑھتے ہوئے تیز چھری سے ذبح کریں۔ قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں۔ ’’ أَللَّھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ إِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘ اور اگردوسرے کی طرف سے ذبح کرتا ہے تو مِنِّیْ کی جگہ مِنْ کے بعد اس کا نام لے ۔ (1)
٭…٭…٭…٭