حکایت نمبر285: قرآن سُن کر روح نکل گئی
حضرتِ سیِّدُناابو بَکْر شِیْرَازِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی سے منقول ہے کہ مکۂ مکرمہ زَادَ ھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاسے واپسی پر میں کئی دن عراق کے غیر آباد ویران جنگلوں میں پھرتا رہا۔ مجھے کوئی شخص نظر نہ آیا جس کی رَفاقت اختیار کرتا۔ کافی دنوں بعدمجھے ایک خیمہ نظر آیا، ایسا لگتا تھا جیسے جانوروں کے بالوں سے بنایا گیا ہو۔ میں خیمہ کے قریب گیا تو دیکھا کہ وہ ایک خستہ حال پرانا مکان تھا
جسے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ میں نے سلام کیا تو اندر سے ایک بوڑھی عورت کی آواز سنائی دی ، اس نے پوچھا:” اے ابنِ آدم! تم کہاں سے آرہے ہو ؟” میں نے کہا:” میں مکہ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاسے آرہا ہوں۔” پوچھا : ” کہا ں کا ارادہ ہے؟” میں نے کہا:” شام جا رہا ہوں۔”
کہا :” میں تیرے جیسے انسان کو جھوٹا اور غلط دعویٰ کرنے والا دیکھ رہی ہوں ۔ کیا تو ایسا نہ کر سکتا تھا کہ ایک کونہ سنبھال لیتا اور اسی میں بیٹھ کر عبادت وریاضت کر تا یہاں تک کہ تجھے پیغامِ اجل آپہنچتا ؟ اے شخص! تویہی سوچ رہا ہے نا کہ یہ بڑھیا اس بیابان جنگل میں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہتی ہے، یہ کھاتی کہاں سے ہوگی ؟” میں خاموش رہا ۔ اس نے پوچھا: ” کیا تمہیں قرآن یاد ہے۔” میں نے کہا :” اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !مجھے قرآن یاد ہے۔” کہا :” سورۂ فرقان کی آخری آیات پڑھو۔” میں نے جیسے ہی تلاوت شرو ع کی وہ چیخنے لگی اور غش کھاکر گر پڑی۔ کافی دیر بعد رات گئے افا قہ ہوا تو وہی آیات پڑھتی رہی اور شدید آہ وزاری کرتی رہی۔ دوبارہ مجھے وہی آیات پڑھنے کو کہا۔ میں نے تلاوت کی تو پہلے کی طرح پھر بے ہوش ہو کر گر پڑی ۔
جب کافی دیر تک ہوش نہ آیا تو میں بہت پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ کیسے معلوم کیا جائے کہ یہ بے ہوش ہے یاانتقال کر گئی ہے ؟ اسے وہیں چھوڑ کر میں ایک سمت چل دیا۔ تقریباً نصف میل چلنے کے بعد مجھے اعرابیوں کی ایک وادی نظر آئی۔ جب وہاں پہنچا تو ایک لونڈی اور دو نوجوان میرے پاس آئے۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا :” اے مسافر! کیا تو جنگل میں موجود گھر کی طر ف سے آرہاہے ؟”میں نے کہا:” ہاں۔” پوچھا :” کیا تو نے وہاں قرآن کی تلاوت کی۔” میں نے کہا:” ہاں۔” نوجوان نے کہا :” ربِّ کعبہ کی قسم ! تو نے اس بڑھیا کو قتل کردیا” پھر ہم اس گھر کی طر ف آئے، لونڈی نے بڑھیا کو دیکھا تو وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر چکی تھی ۔ مجھے نوجوان کے اندازے نے تعجب میں ڈال دیا،میں حیران تھاکہ اس نے کیسے جانا کہ قرآن سن کر بڑھیا کا انتقال ہو جائے گا ۔”میں نے لونڈی سے پوچھا:” یہ نوجوان کون ہے اور بڑھیا سے اس کا کیا رشتہ تھا۔” کہا :” یہ خدارسیدہ بڑھیا ان کی بہن تھی ، تیس سال سے اس نے کسی انسان سے گفتگو نہ کی، بھوکی پیاسی اسی جنگل میں عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتی۔ تین دن بعد تھوڑا ساپانی پی کر اور تھوڑ ا سا کھانا کھاکر گزارہ کرتی یہاں تک کہ آج اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! پہلے کی اسلامی بہنوں میں بھی عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا کیسا جذبہ ہوا کر تا تھا۔ انہیں قرآن کی محبت وتلاوت ، عبادت کا ذوق، خلوَت سے اُلفت، مجاہدات کی طر ف رغبت اور اعمالِ صالحہ پر استقامت جیسی بیش بہا نعمتیں حاصل تھیں ۔ ان تمام امور کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ نیکوں کی صحبت اختیارکی جائے اور ایسا ماحول اپنا یا جائے جس میں ہر دم قرآن وسنت کی باتیں سیکھی اور سکھائی جاتی ہوں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !آج کے پُر فِتَن دَور میں تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر
سیاسی تحریک ”دعوتِ اسلامی” اسلا می بھائیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی بہنوں کی اصلاح کے لئے بھی سنتوں بھرا پاکیزہ ماحول مہیا کر رہی ہے۔ اس ماحول میں آکر نہ جانے کتنے گناہ گاروں کو توبہ کی توفیق ملی اور اب وہ صلوٰۃ وسنت کے پابند ہو کر ایک باعمل باکردار مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ دعوت اسلامی کو دن دُگنی رات چگنی ترقی عطافرمائے ۔ اورتمام علماء اہلسنت اور بالخصوص امیرِ دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطا رؔ قادری رضوی دامت بر کاتہم العالیہ کا سایۂ شفقت قائم ودائم رکھے کہ گلشنِ دعوتِ اسلامی کی بہاریں انہیں کی انتھک محنت وکوشش کا ثمر ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول میں استقامت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو !