حکایت نمبر278: قاضی ابوحَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کا عدل و انصاف
قاضی وَکِیْع علیہ رحمۃاللہ القوی سے منقول ہے کہ”مُعْتَضِد باللہ کے زمانۂ خلافت میں قاضی ابوحَازِم عبدالحمید بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید نے حسن بن سَہْل کی وقف کردہ زرعی زمین کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات پر مجھے نگہبان مقر ر کردیا۔اس سے جو آمدنی ہوتی میں اسے شرعی احکام کے مطابق بیت المال او ر غرباء وغیرہ میں تقسیم کردیتا۔جب خلیفہ مُعْتَضِد باللہ نے اپنے لئے محل تعمیر کروایا تو حسن بن سَہْل کی کچھ َموْقوفہ (یعنی وقف کی ہوئی) زمین بھی عمارت میں شامل کرلی۔ سال ختم ہونے پر میں نے تمام زمین کا حساب کر کے مال وصول کرلیا، صرف شاہی محل میں شامل کی گئی زمین کا حساب باقی تھا ۔ خلیفہ سے اس زمین کی آمدنی کا مطالبہ کرنے کی مجھے جرأ ت نہ ہوئی۔ میں تمام جمع شدہ مال وغلّہ لے کرقاضی ابوحَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے پاس آیا اور کہا: ”میں نے
اوقاف کی تمام زمین سے غلّہ وغیرہ وصول کر لیا ہے اور تمام آمدنی میرے پاس موجود ہے ،آپ مجھے اسے تقسیم کرنے کی اجازت دیں تا کہ جتنا غلہ بیج کے لئے درکار ہے اتنا علیحدہ کر کے باقی مستحقین میں تقسیم کردو ں۔”
قاضی صاحب نے کہا :” کیا جو زمین خلیفہ مُعْتَضِد باللہ نے اپنے محل کے اِحاطہ میں شامل کی ہے ، اس کی آمدنی بھی وصول کرلی گئی ہے ؟”میں نے کہا:”حضور!خلیفہ سے کون مطالبہ کر سکتا ہے ؟” فرما یا:” خدا ئے بزرگ وبر تر کی قسم! میں اس وقت تک کچہری ختم نہ کرو ں گا جب تک وہ تمام رقم وصول نہ کرلوں جو خلیفۂ وقت کے ذمہ ہے ، بخدا اگر خلیفہ نے غلہ یا اس کی قیمت ادا نہ کی تو میں کبھی بھی عہدۂ قضاء قبول نہ کروں گا۔ اے وَکِیْع! تم فوراً خلیفہ کے پاس جاؤ اور رقم کا مطالبہ کرو! میں نے کہا: ”مجھے دربارِ شاہی تک کون پہنچا ئے گا ؟” فرمایا: فلاں سرکاری نمائندے کے پاس جاؤ اور کہو کہ” میں قاضی صاحب کا قاصد ہوں، ایک بہت ہی اہم کام کے سلسلے میں اِسی وقت خلیفہ کے پاس حاضر ہو نا چاہتا ہوں تم مجھے دربار شاہی تک لے چلو ۔” وَکِیْع کہتے ہیں کہ میں اس سرکاری نمائندے کے پاس پہنچا تووہ مجھے لے کر خلیفہ کے محل پہنچا۔ رات کا آخری پہر تھا ، ہر طرف سناٹا چھایا ہواتھا ۔ پورا شہر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔جب خلیفہ کو بتایا گیا کہ ایک بہت ضروری کام کے سلسلے میں قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کا قاصد آیا ہے تو خلیفہ نے فورا مجھے اپنے پاس بلا لیا اور کہا: ایسا کون سا ضروری کام ہے جس کی خاطر اتنی رات گئے آنا پڑا۔ میں نے کہا :” حضور ! آج میں نے تمام موقوفہ زمینوں کا حساب کیا اور ان کی آمدنی قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم تک پہنچا کر مستحقین میں تقسیم کرنے کی اجازت طلب کی،قاضی صاحب نے تفتیش کی تو اس زمین کی آمدنی اس مال میں شامل نہ تھی جو آپ کے محل کے احاطہ میں داخل کر دی گئی ہے ، قاضی صاحب نے فرمایا:اس وقت تک یہ آمدنی کہیں بھی صرف نہ ہوگی جب تک خلیفہ کے محل میں شامل کردہ زمین کی آمدنی وصول نہ ہوجائے۔بس اسی سلسلے میں حاضر ہواہوں ۔”
خلیفہ مُعْتَضِدباللہ کچھ دیر خاموش رہا ، پھر کہا:”بے شک قاضی صاحب نے صحیح کیا ، اور وہ حق کو پہنچ گیا۔”یہ کہہ کر اس نے خادمین سے کہا ، جاؤ اور فلاں صندوق اٹھا لاؤ،حکم کی تعمیل ہوئی دراہم ودنانیر سے بھرا صندوق لایا گیا ، خلیفہ نے کہا:” بتا ؤ، ہمارے ذمہ کتنا مال ہے ؟” میں نے کہا :” جب سے وہ زمین محل میں شامل کی گئی ہے اس وقت سے اب تک اس ز مین سے تقریباً چار سو دینار آمدنی ہو سکتی تھی ، آپ اتنی ہی رقم ادا کردیں۔” خلیفہ نے کہا:”بتا ؤ گِن کر اداکروں یا وزن کرو اکر ؟” میں نے کہا:جو طریقہ زیادہ بہتر ہووہی اختیار فرمائیے ۔”خلیفہ نے ترازومنگوایاا اور چار سو دینارتول کر میرے حوالے کردیئے گئے۔ میں تمام رقم لے کر قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ کہہ سنایا۔” فرمایا:” یہ رقم فوراً وقف کی آمدنی میں شامل کر دو اور صبح ہوتے ہی بیج کے لئے غلہ نکال کر بقیہ مال مستحقین میں تقسیم کردینا۔ خبردار ! اس معاملے میں ذرا سی بھی تا خیرنہ کرنا ۔”
قاضی وَکِیْع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں: ”جب لوگو ں کو قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی جرا ء َت مندی، عدل وانصاف اور
خلیفۂ وقت سے حق داروں کاحق لینے کے متعلق معلوم ہو اتو انہوں نے قاضی صاحب کو خوب داد دی اور پورے شہر میں قاضی صاحب کی جراء َت مندی اور خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے عدل وانصاف کا شُہْرَہ ہوگیا ۔اور لوگ قاضی ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے لئے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں دستِ دُعا دراز کرتے ہوئے نظر آنے لگے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
( سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! کیسے جُرأت مند وحق گوہوا کرتے تھے ہمارے اسلاف۔انہیں حق گوئی اور انصاف پسندی سے کوئی نہ روک سکتا تھا ۔ بڑی سے بڑی طاقت بھی انہیں اَمْرٌبِالْمَعْرُوْف اور نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر سے نہ روک سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے ایسے سَپوت بھی اس مادَرِ گیتی پر جلوہ افروز ہوئے جو بظاہر عام سے عہدے پرفائز تھے لیکن بادشاۂ وقت سے بھی حق کے معاملہ میں نہ گھبراتے، کسی بھی رعایت کے بغیر ان کے بارے میں بھی وہی فیصلہ کرتے جو ایک عام غریب کے ساتھ کیا جاتا۔پھر ان لوگو ں کی بے لوث خدمت اور بے غرض کوششیں رنگ بھی لائیں۔ ایسے بڑے بڑے اُمَراء کہ جن کے ایک اشارے پر گردنیں اڑادی جاتیں، جن کے غیض و غضب کے سامنے بڑے بڑے دلیر لرزتے تھے، لیکن ان مردان ِحق کے سامنے ان کا رعب ودبدبہ دَب جاتا اور حق بات پر انہیں صلح کرنا ہی پڑتی ،حق دار کو ان کا حق دینا ہی پڑتا، بلکہ یہ امراء وخلفاء ان مردانِ حق سے خائف رہتے، بلاتَاَمُّل ان کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کر دیتے۔ )