حکایت نمبر398: پوری سلطنت کی قیمت پانی کا ایک گلاس
محمدبن عَمرو بن خالد کوان کے والد نے بتایا : ”ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نےشَعْبَانُ الْمُعَظَّم کے آخر میں حضرتِ سیِّدُنا محمد بن سَمَّاک علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کو اپنے پاس بلوایا،جب آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شاہی دربار میں پہنچے تو یحیی بن
خالد نے کہا:”کیا آپ جانتے ہیں کہ امیر المؤمنین نے آپ کو کیوں بلوایاہے؟” فرمایا: ” مجھے نہیں معلوم ۔”یحیی نے کہا :” امیر المؤمنین تک آپ کے متعلق یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر عام و خاص کے لئے بہت اچھی دعا فرماتے ہیں۔اسی لئے آپ کو بلایاگیا ہے۔”
فرمایا:” امیر المؤمنین کو میرے متعلق جو بات پہنچی ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری پردہ پوشی فرمائی ۔ اگر میرا ستّار و غفار پروردگار عَزَّوَجَلَّ میری پردہ پوشی نہ فرماتا تو مجھے عزت و عظمت کالباس نہ ملتا۔ اے امیر المؤمنین !اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرے عیوب پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ اسی پر دہ پوشی نے مجھے تمہارے سامنے لا بٹھایا ہے۔ اے امیر المؤمنین ! بخدا !میں نے تم سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔ خدارا! تم اپنے چہرے کو جہنم کی آگ میں ہرگز نہ جلانا۔” حضرتِ سیِّدُنا ابن سَمَّاک علیہ رحمۃ اللہ الرزاق جیسے مخلص اورخوفِ خدا رکھنے والے مبلِّغ کی زبانی یہ حکمت بھری باتیں سُن کر خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید نے زور زور سے رونا شروع کردیا اور کافی دیر تک روتے رہے۔ ان کے پاس پانی کا پیالہ لایا گیا۔ جب انہوں نے پینا چاہا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اے امیر المؤمنین! پانی پینے سے پہلے میری ایک بات سُن لیجئے ۔” خلیفہ رُک گیا اور کہا:” فرمایئے ! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔” فرمایا: ” اگر یہ پانی کا پیالہ آپ سے روک دیا جائے اور اس قیمت پر دیا جائے کہ آپ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ دے دیں، توآپ کیا کریں گے ؟ امیر المؤمنین نے کہا:” میں سب کچھ دے کر پانی حاصل کروں گا۔” فرمایا:” اچھا اب پانی پی لو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں برکتیں عطا فرمائے۔” جب امیر المؤمنین پانی پی چکے تو آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اگر یہ پانی آپ کے جسم سے باہر نہ نکلے اور پیشاب بند ہوجائے تو کیا اس مرض سے نجات پانے کے لئے آپ ساری دنیا مع سازوسامان فدیہ دینے کو تیار ہوجائیں گے؟” کہا:”ہاں! میں ساری سلطنت دے کر بھی اپنا علاج کراؤں گا۔” فرمایا: ”اے امیر المؤمنین! اس چیز پر کیا اِترانا جس سے پانی کا ایک پیالہ بھی بہتر ہے۔”
خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید نے جب فکر ِ آخرت دلانے والا یہ جملہ سُنا تو رونے لگے پھر یہ رونا بڑھتا ہی گیا۔یحیی بن خالد نے کہا:” اے ابن سَمَّاک علیہ رحمۃ اللہ الرزاق ! آپ نے امیر المؤمنین کو تکلیف میں مبتلا کردیا ہے ۔” فرمایا:” اے یحیٰی! خبردار! اپنے آپ کو بچانا! کہیں دنیا کا عیش و آرام تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے۔ ”یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ واپس چلے آئے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دنیا کی چند روزہ فانی زندگی پر کیا اِترانا،اس کی رنگینیاں اور بہاریں بہت جلد ختم ہونے والی ہیں۔ دنیابڑی بے وفاہے یہ کسی کے ساتھ وفانہیں کرتی۔جس نے بھی دنیا کی حقیر دولت سے دل لگایا وہ حقیقی سکون و آرام کی دولت سے محروم ہی رہا۔عقل مند و سمجھ دار وہی ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو بچائے اور ہمہ
وقت آخرت کی تیاری میں مشغول رہے اور ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے جن کے دلوں میں خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی شمع فروزاں ہے۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ چند ہی دنوں میں سکونِ قلبی کی دولت نصیب جائے گی۔ )
؎ باغِ جنت میں محمد صلي اللہ عليہ وسلم مسکراتے جائیں گے
پھول رحمت کے جَھڑیں گے ہم اُٹھاتے جائیں گے
خُلد میں ہو گا ہمارا داخلہ اس شان سے
یا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا نعرہ لگاتے جائیں گے