پیر میں کن باتوں کا ہونا ضروری ہے ؟

پیر میں کن باتوں کا ہونا ضروری ہے ؟

چونکہ اَولیاء کے سلسلے میں داخل ہونا ان کا مرید و معتقد ہونا دونوں جہان کی بھلائی اور برکت کا ذریعہ ہے اسی لیے بیعت سے پہلے پیر میں یہ چار باتیں ضرور دیکھ لیں:
{۱} سنی صحیح العقیدہ ہو، ورنہ ایمان بھی ہاتھ سے جائے گا۔

{۲} اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضرورت کے مسائل کتابوں سے نکال لے،نہیں تو حرام حلال، جائز و ناجائز کا فرق نہ کرسکے گا۔
{۳} فاسق معلن (1 ) نہ ہو کہ فاسق کی توہین واجب ہے اور پیر کی تعظیم ضروری ہے۔
{۴} اس کا سلسلہ نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِِ وَسَلَّم تک متصل ہو ورنہ اُوپر سے فیض نہ پہنچے گا۔
نَسْئَلُ اللّٰہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ

تقلید

تقلید، یعنی دین کے چاروں اماموں میں سے کسی ایک کے طریقہ پر اَحکامِ شرعیہ بجالانا مثلاً امام اعظم ابوحنیفہ یاامام مالک یا امام شافعی یا امام حنبل (رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام) کے طورپر نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ ادا کرنا کسی ایک امام کی پیروی واجب ہے اسی کو تقلید ِ شخصی کہتے ہیں۔

تنبیہ :

اِن اماموں نے اپنی طرف سے کوئی مسئلہ گڑھا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث کا مطلب صاف صاف بیان کیا ہے جو عام آدمیوں بلکہ عام عالموں کی سمجھ میں بھی نہیں آسکتا تھا، لہٰذا اِن اماموں کی پیروی دراصل قرآن و حدیث کی پیروی ہے۔
مسئلہ:جو شخص ایک امام کی پیروی کرتا ہے وہ دوسرے اماموں کی پیروی نہیں کرسکتا، مثلاً یہ نہیں ہوسکتا کہ کچھ مسئلوں میں ایک امام کی پیروی کرے اور کچھ مسئلوں پر دوسرے کی بلکہ

تمام مسائل میں ایک معین امام کی پیروی واجب ہے اور یہ بھی جائز نہیں کہ حنفی شافعی ہوجائے یا شافعی حنفی ہوجائے بلکہ جو آج تک جس امام کا مقلد رہا ہے آئندہ بھی اسی کی تقلید کرے اور اب تمام علماء کا اتفاق ہے کہ چاروں اماموں کے علاوہ کسی اور امام و مجتہد کی تقلید جائز نہیں۔ (1 )
ھٰھُنَا قَدْ تَمَّتِ الْعَقَائِدُ السُّنَّۃِ السُّنِّیَّۃِ بِفَضْلِہٖ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی

________________________________
1 – فاسق معلن: وہ شخص ہے جو کھلم کھلا گناہ کرتا ہے۔ (۱۲منہ)

________________________________
1 – شاہ ولی اللّٰہ صاحب دہلوی (رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالَی عَلَیْہ) اپنی کتاب ’’الانصاف‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ بعد المأتین ظہر بینھم التمذھب للمجتھدین با عیانھم…الخ ‘‘ یعنی دو صدی ہجری کے بعد خاص ایک مجتہدکی پیروی مسلمانوں میں رائج ہوئی اور کم کوئی شخص تھا جو امام معین کی پیروی نہ کرتا ہو اور یہی واجب ہے اس زمانہ میں ۔
طحطاویہ حاشیہ در مختار میں ہے: ’’ ھذہ الفرقۃ الناحیۃ قد اجتمعت الیوم فی مذاھب اربعۃ و ھم الحنفیون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی ومن کان خارجا عن ھذہ الاربعۃ فی ھذا الزمان فھو من اھل البدعۃ والنار ‘‘ یعنی اب اہل سنت کا گروہ انہیں چاروں کی پیروی میں منحصر ہوگیا ہے جو ان چار سے باہر ہے وہ بدعتی جہنمی ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر،کتاب الذبائح،۴/ ۱۵۳)
اما م شعرانی نے میزان شریعت کبریٰ میں امام غزالی و امام الحرمین وغیرہ آئمہ (رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام) کا قول یوں نقل کیا ہے: ’’ وقالوا لتلامذتھم یجب علیکم التقلید بمذھب امامکم ولا عذر لکم عند اللّٰہ تعالٰی فی العدول عنہ ‘‘ یعنی ان سب اماموں نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ تم پر خاص اپنے امام کے مذہب کا پابند رہنا واجب ہے، اگر ان کے مذہب کو چھوڑا تو خدا کے حضور تمہارے لیے کوئی عذر نہ ہوگا۔ ۱۲منہ سلمہ ۔ (المیزان الکبری الشعرانیۃ،۱/ ۵۳)

Exit mobile version