حکایت نمبر469: نُمَیْر کی شہادت
حضرتِ سیِّدُنا عباس بن محمدبن عبدالرحمن اَشْہَلِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: مجھے میرے والدنے حضرتِ ابنِ نُمَیْر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے سے بتایا کہ ”میرے بھانجے نُمَیْر کا شمار کوفہ کے زاہدوں میں ہوتا تھا ، وہ نماز و طہارت کاخوب خیال رکھنے والا حسین وجمیل نوجوان تھا۔کچھ عرصہ بعد کسی عارضہ کی وجہ سے اس کی عقل جاتی رہی اور حالت یہ ہوگئی کہ سخت گرمیوں میں زوال کے وقت بھی سائے میں نہ بیٹھتابلکہ کھلے میدان اور صحراء میں سارا سارا د ن گزاردیتا۔سخت سردی ہو یاتیزوتندآندھی وہ ہر موسِم میں رات اپنے مکان کی چھت پر کھڑے کھڑے گزارتا،روزانہ اس کایہی معمول تھا۔ایک دن صبح صبح چھت سے اُترکرقبرستان کی طرف جانے لگا تومیں نے کہا: ”اے نُمَیْر! کیاتم رات کوسوتے نہیں ہو؟ ‘ ‘ کہا : ‘ ‘جی ہاں۔”میں نے کہا:”کس چیزنے تمہیں سونے سے منع کر رکھا ہے؟” کہا:”ایک بہت بڑی مصیبت نے میری نینداُڑا رکھی ہے ۔”میں نے کہا:”اے نُمَیْر!کیاتم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے نہیں ڈرتے؟” کہا: ”کیوں نہیں!میں اپنے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتاہوں اورمصیبتیں توانسان پرآتی ہی ہیں ۔کیا حضور نبئ پاک، صاحب ِ لولاک، سیَّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد نہیں فرمایا کہ ”سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء کرام علیہم السلام پر آتی ہیں پھر ترتیب وار صاحب مرتبہ لوگوں پر آتی ہیں۔”
(السنن الکبرٰی للنسائی، کتاب الطب،أی الناس أشد بلاء، الحدیث۷۴۸۲،ج۴،ص۳۵۲)
یہ سن کرمیں نے کہا:”کیاتم مجھ سے زیادہ جانتے ہو؟” اس نے نفی میں جواب دیااور آگے بڑھ گیا۔پھرایک سخت سرد رات جب میں چھت پرگیاتودیکھاکہ نُمَیْروہاں کھڑاہے اورمیری بہن( یعنی اس کی ماں ) اس کے پیچھے بیٹھی رورہی ہے۔میں نے پوچھا: ”اے نُمَیْر!کیااب بھی ایسی کوئی چیزباقی ہے جس کی تمہیں بہت زیادہ خواہش ہواورتم اس میں کامل نہ ہوئے ہو؟” کہا: ”جی ہاں! میں اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی کامل محبت کا بہت زیادہ طلب گارہو ں ۔”
ایک مرتبہ رمضان المُبَارَک کی سخت سردرات میں مَیں چھت پرگیاتو نُمَیْرسے کہا:”اے ابو نُمَیْر!کیاتم کھانانہیں کھاؤ گے۔”کہا:”کیوں ۔” میں نے کہا: ” مجھے پسندہے کہ میری بہن تجھے میرے ساتھ کھاناکھاتے ہوئے دیکھے۔” کہا: ”اچھا! اگر یہی چاہتے ہوتو کھانالے آؤ۔”میں نے کھانامنگوایااور ایک ساتھ کھایا۔ فراغت کے بعدجب میں واپس آنے لگاتویہ سوچ کر مجھے رونا آ گیا کہ میں توجارہاہوں اور میرابھانجاسردی اوراندھیرے میں ہے۔ مجھے روتادیکھ کراس نے کہا:”اللہ تعالیٰ تم پررحم کرے، کیوں رو رہے ہو؟”میں نے کہا:” میں تومکان کی چھت تلے روشنی میں جا رہا ہوں اورتم یہاں اندھیرے اورسردی میں ہو،مجھے تم پربہت ترس آ رہا ہے۔”یہ سن کروہ غضب ناک ہوگیااورکہا:”میرارب عَزَّوَجَلَّ مجھ پر تجھ سے کہیں زیادہ مہربان ہے،وہ خوب جانتاہے کہ میرے لئے کون سی چیزفائدہ مند ہے۔جاؤ! مجھے اس کے ذمۂ کرم پرچھوڑدو، وہ جیسا چاہے میرے بارے میں فیصلہ فرمائے، مجھے
اس کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ‘ ‘ میں نے اسے سمجھانے کے لئے کہا: ”تم قبرکے اندھیرے میں کیا کرو گے ۔”
کہا:”اللہ ربُّ العِزَّت نیک لوگوں کی روحوں کوبرے لوگوں کی روحوں کے ساتھ نہ ملائے گا۔ میری بات سنو! آج رات میرے والداورتمہارے والدعبداللہ بن نُمَیْرمیرے خواب میں آئے اور کہا:” اے نُمَیْر! جمعہ کے دن تم شہیدہوکرہمارے پاس پہنچ جاؤ گے۔”نُمَیْرکی یہ بات میں نے اپنی بہن کو بتا ئی تواس نے کہا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!بارہا میرا تجربہ ہے کہ اس کی بات کبھی جھوٹی نہیں ہوئی،یہ جوبات کہتاہے وہ ضرورہوکررہتی ہے۔” یہ سن کرمیں خاموش ہوگیا۔وہ بدھ کادن تھااورہم متعجب وحیران ہوکرکہہ رہے تھے کہ کل جمعرات ہے اورپَرسوں جمعہ ہے با لفر ض یہ کل بیمارہوبھی گیا اورپرسوں مرگیاتو شہیدکیسے ہو گا؟ اسی شش وپنج (یعنی سوچ بچار)میں جمعہ کی رات آگئی۔ تقریباًآدھی رات کے وقت اچا نک ہم نے ایک دھماکے کی آوازسنی ،ہم دوڑکرگئے تودیکھاکہ نُمَیْرفرش پرمردہ حالت میں پڑا ہوا ہے۔ ہوایوں کہ جب وہ چھت پر جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھنے لگاتواس کاپاؤں پھسل گیااورگردن ٹوٹ گئی (اوراس طر ح اسے شہادت کی موت نصیب ہو گئی ) میں اسے اپنے والدکے پہلومیں دفنا کر والد صاحب کی قبرکے پاس آیااورکہا:”ابا جان!نُمَیْرآپ کے پاس آ گیاہے اوریہ آج سے آپ کا پڑوسی ہے ۔”
یہ کہہ کرمیں غمزدہ وافسردہ گھرآگیا۔رات کوخواب دیکھاکہ والدِ محترم گھرکے دروازے سے تشریف لائے اور فرمایا: ”اے میرے بیٹے !تم نے نُمَیْرکے ذریعے مجھے اُنس فراہم کیا۔اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی اچھی جزا عطا فر ما ئے ۔ سنو!جب تم نُمَیْرکوہمارے پاس چھوڑآئے تواس کانکاح” حورِ عین” سے کردیاگیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)