نصف النہار اور ضحویٰ کبریٰ کا بیان
مسئلہ۱۸: نصف النہار سے مراد نصف النہار شرعی سے لے کر نصف النہار حقیقی یعنی سورج ڈھلنے تک ہے جس کو ضحوئہ کبریٰ کہتے ہیں ۔
مسئلہ۱۹: نصف النہار شرعی معلوم کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ آج جس وقت سے صبح صادق شروع ہوئی اس وقت سے لے کر سورج ڈوبنے تک جتنے گھنٹے ہوں ان کے دو حصے کرو پہلے حصے کے ختم پر نصف النہار شرعی شروع ہوجائے گی اور سورج ڈھلتے ہی ختم ہوجائے گی۔ مثلاً آج ۲۰مارچ کو چھ بجے شام کو سورج ڈوبا اور تقریباً چھ ہی بجے نکلا، ۱۲ بجے دن کو ٹھیک دوپہر ہوئی اور ساڑھے چار بجے صبح کو صبح صادق ہوئی تو کل صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک ساڑھے تیرہ گھنٹے ہوئے جس کا آدھا پونے سات گھنٹہ ہوا۔ اب صبح صادق کے شروع یعنی ساڑھے چار بجے سے یہ پونے سات گھنٹہ وقت گزرنے دو تو سوا گیارہ بج جائیں گے، اب سوا گیارہ بجے نصف النہار شرعی یعنی ضحوہ کبریٰ شروع ہوا اور ٹھیک بارہ بجتے ہی جب سورج پچھم (1 ) کو ڈھلا ختم ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ آج پون گھنٹہ یعنی سوا گیارہ بجے دن سے بارہ بجے تک نصف النہار شرعی رہا یہ اتنا پون گھنٹہ کا وقت ناجائز وقت ہے۔
تنبیہ: ان شہروں کے لحاظ سے یہ ایک تقریبی مثال ہے۔ مختلف مقامات و مختلف زمانوں میں کم و بیش بھی ہوگا، ہر جگہ اور ہر دن کا اسی قاعدے سے ٹھیک ٹھیک ضحوہ کبری نکالیں ۔
مسئلہ۲۰: جنازہ اگر اوقاتِ ممنوعہ میں لایا گیا تو اُسی وقت پڑھیں کوئی کراہت نہیں ، کراہت اس صورت میں ہے کہ پیشتر سے تیار موجود ہے اور دیر کی یہاں تک کہ
وقت کراہت آگیا۔ (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ۲۱: اِن تینوں وقتوں میں تلاوتِ قرآنِ مجید بہتر نہیں ، بہتر یہ ہے کہ ذکرو درود شریف میں مشغول رہے۔
(عالمگیری)
________________________________
1 – مغرب