نصیحت آموزچاراشعار

نصیحت آموزچاراشعار

حضرت سیدنا محمد بن محمد صوفی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ میں ایک بار موسمِ سرما کی بہت سرد رات کسی کام سے ”حلوان” کی پہاڑیوں میں گیا ۔سردی اپنی اِنتہاء کو پہنچ چکی تھی ،میں نے اپنے جسم پر دوہر الباس پہنا ہوا تھا اور ایک موٹا کمبل بھی اوڑ ھ رکھا تھا لیکن پھر بھی سردی کی وجہ سے مجھے بہت پریشانی ہو رہی تھی۔ اچانک میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جس کے جسم پر صرف دو چادریں تھیں جن سے صرف ستر پوشی ہو سکتی تھی، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی کپڑا نہیں تھا۔وہ بالکل مطمئن نظر آرہا تھا گویا سردی کی وجہ سے اسے کوئی پریشانی ہی نہیں ۔ میں اس کی جانب بڑھا لیکن وہ مجھ سے دُور ہٹ کر چلنے لگا۔میں پھر اس کے قریب گیا لیکن وہ مجھ سے دور ہوگیا ، پھر میں جلدی جلدی چلا اور اس کے پاس پہنچ گیا اورپوچھا: ”تم مجھ سے دور کیوں بھاگ رہے ہو؟” کیا میں کو ئی درندہ ہوں جو تم مجھ سے دوری چاہ رہے ہو؟” یہ سن کر اس نوجوان نے کہا: ”اگر ستّر(70) درندے میرے سامنے آجائیں تو مجھے ان سے اِتنی پریشانی نہیں ہوگی جتنی تمہاری ملاقات سے ہو رہی ہے۔”
میں نے اس سے کہا :” اتنی سخت سردی میں تم نے صرف دو معمولی چادریں جسم پر لپیٹی ہوئی ہیں اور تمہیں سردی کا احساس تک نہیں ہورہا اور میری حالت یہ ہے کہ سردی سے حفاظت کے لئے کئی کپڑے موجود ہیں پھر بھی سردی محسوس کر رہا ہوں، تم مجھے کوئی نصیحت کرو تاکہ میں اپنے رب عزوجل سے صلح کر لو ں اور میرے دل میں اس کی محبت راسخ ہوجائے ۔” وہ نوجوان کہنے لگا :”کیا تم نصیحت آموز باتیں سننا چاہتے ہو؟” میں نے کہا :”ہاں۔” پھر اس نوجوان نے یہ چاراشعار پڑھے:

إذَا مَا عَدَتِ النَّفْسُ

عَنِ الْحَقِّ زَجَرْنَاھَا
وَإنْ مَالَتْ إلَی الدُّنْیَا

عَنِ الْاُخْرٰی مَنَعْنَاھَا
تُخَادِعُنَا وَنَخْدَعُھَا

وَبِا لْصَّبْرِ غَلَبْنَاھَا
لَھَا خَوْفٌ مِّنَ الْفَقْر

وَفِیْ الْفَقْرِ اَنَخْنَاھَا

ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔جب کبھی نفس اللہ عزوجل کے معاملہ میں کوتا ہی کرتاہے تو ہم اسے زجر وتو بیخ کرتے ہیں ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔جب اُخروی نعمتو ں کو چھوڑ کر دنیا کی طر ف مائل ہوتا ہے تو ہم اسے منع کردیتے ہیں ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔نفس ہمیں دھوکا دینا چاہتا ہے تو ہم بھی اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور صبر کی وجہ سے اس پر غالب آجاتے ہیں۔
(۴)۔۔۔۔۔۔نفس فقر وفاقہ سے خوف زدہ ہوتا ہے جبکہ ہم فقر و فاقہ کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد وہ نوجوان میری نظرو ں سے اوجھل ہوگیا۔ تین یا چار دن کے بعدجب میری واپسی ہوئی تو میں نے حضرت سیدنا ابراہیم بن شیبان علیہ رحمۃاللہ المنّان سے ملاقات کی اور اس نوجوان کی باتوں کی وجہ سے میری یہ حالت تھی کہ میں نے

کمبل اُتار پھینکا تھا اور صر ف سادہ لباس پہنا ہواتھا حالانکہ سخت سردی تھی جب میں ابراہیم بن شیبانعلیہ رحمۃ الرحمن کے پاس پہنچا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے پوچھا: ”سفر میں تمہاری ملاقات کس سے ہوئی ۔”میں نے اس نوجوان کا واقعہ بتایا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے: ”وہ ابو محمد بسطامی علیہ رحمۃ اللہ الوالی تھے اور اس دن وہ مجھ سے ملاقات کر کے گئے تھے، جو اشعار انہوں نے تمہیں سنائے وہ ہمیں بھی سناؤ ۔” میں نے وہ اَشعار سنانا شروع کئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا: ” یہ اَشعار بہت نصیحت آموز ہیں، انہیں لکھ لو۔” چنانچہ انہوں نے وہ اشعار قلم بند کرلئے۔
(اللہ ل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)

Exit mobile version