قرأ ت میں کتنی آواز ہونی چاہیے ؟

قرأت یعنی قرآن شریف پڑھنے کا بیان

قرأ ت میں کتنی آواز ہونی چاہیے ؟

مسئلہ۱: قرأت میں اتنی آواز ہونی چاہیے کہ اگر بہرا نہ ہو اور شورو غل نہ ہو تو خود سن سکے، اگر اتنی آواز بھی نہ ہوئی تو نماز نہ ہوگی، اِسی طرح جن معاملات میں بولنے کو دخل ہے سب میں اتنی آواز ضروری ہے مثلاً جانور ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر کہنے میں طلاق دینے میں آیۂ سجدہ پڑھنے پر سجدہ تلاوت واجب ہونے میں اِتنی آواز ضروری ہے کہ خودسن سکے۔ (مراقی الفلاح وغیرہ)
مسئلہ۲: فجر و مغرب وعشاء کی دو پہلی رکعتوں میں اور جمعہ و عیدین و تراویح اور رمضان
کے وتر میں امام پر جہر واجب ہے اور مغرب کی تیسری رکعت میں اور عشاء کی تیسری اور چوتھی رکعت میں ظہر و عصرکی سب رکعتوں میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔
مسئلہ۳: جہر کے یہ معنی ہیں کہ اتنی زور سے پڑھے کہ کم از کم پہلی صف کے لوگ سن سکیں اور آہستہ یہ کہ خود سن سکے۔
مسئلہ۴: اس طرح پڑھنا کہ قریب کے دو ایک آدمی سن سکیں جہر نہیں بلکہ آہستہ ہے۔ (درمختار)
مسئلہ۵: جہری نمازوں میں اکیلے کو اختیار ہے چاہے زور سے پڑھے چاہے آہستہ اور افضل جہر ہے۔
مسئلہ۶: اگر منفرد قضا پڑھے تو ہر نماز میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ (درمختار)
مسئلہ۷: آہستہ پڑھ رہا تھا کہ دوسرا شخص شامل ہوگیا تو جو باقی ہے اُسے جہرسے پڑھے اور جو پڑھ چکا ہے اُس کا اِعادہ نہیں ۔
مسئلہ۸: سورت ملانا بھول گیا رکوع میں یاد آیا تو کھڑا ہوجائے اور سورۃ ملائے پھر رکوع کرے اور آخر میں سجدہ سہو کرے اگر دوبارہ رکوع نہ کرے گا تو نماز نہ ہوگی۔ (درمختار)
مسئلہ۹: حضر میں (1 ) جب کہ وقت تنگ نہ ہو تو سنت یہ ہے کہ فجر و ظہر میں طوالِ مفصل پڑھے اور عصر و عشاء میں اَوساطِ ِمفصل پڑھے اور مغرب میں قصار ِمفصل، چاہے امام ہو یا منفرد۔ ( درمختار وغیرہ)

________________________________
1 – حالت ِاقامت میں ہو یعنی سفر میں نہ ہو۔

Exit mobile version