نماز کا طریقہ و مسائل

نماز کا طریقہ و مسائل

(۱) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَنَّ نَہْرًا بِبَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسًا ہَلْ یَبْقَی مِنْ دَرَنِہِ شَیْء ٌ قَالُوا لَا یَبْقَی مِنْ دَرَنِہِ شَیْء ٌ قَالَ فَذَلِکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ یَمْحُو اللَّہُ بِہِنَّ الْخَطَایَا۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ بتائو اگر تم لوگوں میں کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ ا س میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا ان کے بدن پر کچھ میل باقی رہ جائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ایسی حالت میں اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی نہ رہے گا ۔
حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا بس یہی کیفیت ہے پانچوں نمازوں کی، اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ (بخاری، مسلم)
(۲) عَنْ أَبِی ذَرٍّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَائِ وَالْوَرَقُ یَتَہَافَتُ فَأَخَذَ بِغُصْنَیْنِ مِنْ شَجَرَۃٍ قَالَ فَجَعَلَ ذَلِکَ الْوَرَقُ یَتَہَافَتُ قَالَ فَقَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ قُلْتُ لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَیُصَلِّ الصَّلَاۃَ یُرِیدُ بِہَا وَجْہَ اللَّہِ فَتَہَافَتُ عَنْہُ ذُنُوبُہُ کَمَا یَتَہَافَتُ ہَذَا الْوَرَقُ عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ۔ (2)
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ایک روز سردی کے موسم میں جب کہ درختوں کے پتے گررہے تھے ۔ (یعنی پت جھڑ کا موسم تھا) حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم باہر تشریف لے گئے تو آپ نے ایک درخت کی دو ٹہنیاں پکڑیں ( اور انہیں ہلایا) تو ان شاخوں سے پتے گرنے لگے ۔ آپ نے فرمایا اے ابوذر! حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا حاضر ہوں یارسول اللہ!آپ نے فرمایاجب مسلمانبندہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے کہ یہ پتے درخت سے

________________________________
1 – ’’صحیح البخاری‘‘، کتاب مواقیت الصلاۃ، الحدیث: ۵۲۸، ج۱، ص۱۹۶، ’’صحیح مسلم‘‘ ، الحدیث: ۲۸۳۔ (۶۶۷) ص۳۳۶، ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، الحدیث: ۵۶۴، ج۱، ص ۱۲۲.
2 – ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، حدیث أبی ذر الغفاری، الحدیث: ۲۱۶۱۲، ج۸، ص۱۳۳.

جھڑ رہے ہیں۔ (احمد)
(۳) عَنْ سَلْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ مَنْ غَدَا إِلَی صَلَاۃِ الصُّبْحِ غَدَا بِرَایَۃِ الْإِیمَانِ وَمَنْ غَدَا إِلَی السُّوقِ غَدَا بِرَایَۃِ إِبْلِیسَ۔ (1)
حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص فجر کی نماز کو گیا وہ ایمان کا جھنڈا لے کر گیا۔ اور صبح سویرے بازار کی طرف گیا وہ شیطان کا جھنڈا لے کر گیا۔ (ابن ماجہ)
(۴) عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمَرِو بْنِ الْعَاصِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ ذَکَرَ الصَّلاَۃَ یَوْماً فَقَالَ: مَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا کَانَتْ لَہُ نُوراً وَبُرْہَاناً وَنَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَمْ یُحَافِظْ عَلَیْہَا لَمْ تَکُنْ لَہُ نُوراً وَلَا بُرْہَاناً وَلَا نَجَاۃً، وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَأُبَیِّ بْنِ خَلَفٍ۔ (2)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا سے رو ایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز نماز کا ذکر کیا تو فرمایا کہ جو شخص نماز کی پابندی کرے گا تو نماز اس کے لیے نور کا سبب ہوگی ۔ کمالِ ایمان کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن بخشش کا ذریعہ بنے گی۔ اور جو نماز کی پابندی نہیں کرے گا اِس کے لیے نہ تو نور کا سبب ہوگی نہ کمالِ ایمان کی دلیل ہوگی اور نہ بخشش کا ذریعہ اور وہ قیامت کے دن قارون فرعون ، ہامان اور اُبی بن خلف کے ہمراہ ہوگا۔ (احمد، دارمی، بیہقی)
(۵) عَنْ عَلِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَا عَلِیُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْہَا الصَّلَاۃُ إِذَا أَتَتْ وَالْجَنَازَۃُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَیِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَھَا کُفْؤًا۔ (3)
حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے مجھ سے فرمایا کہ اے علی تین کاموں میں دیر نہ کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب وقت ہوجائے ، دوسرے جنازہ میں جب کہ وہ تیار ہو

جائے ، تیسرے بیوہ کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو مل جائے ۔ (ترمذی)
f عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تِلْکَ صَلَاۃُ الْمُنَافِقِ یَجْلِسُ یَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّی إِذَا اصْفَرَّتْ وَکَانَتْ بَیْنَ قَرْنِی الشَّیْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لَا یَذْکُرُ اللَّہَ فِیہَا إِلَّا قَلِیلًا۔ (1)
حضر ت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھے ہوئے سورج کا انتظار کرتا ہے یہاں تک کہ جب سورج پیلا پڑ جاتا ہے اور شیطان کی دونوں سینگوں کے بیچ میں آجاتا ہے تو کھڑا ہو کر چار چونچ مارلیتاہے ۔ نہیں ذکرکرتااس (تنگ وقت) میں اللہ تعالیٰ کا مگر بہت تھوڑا۔ (مسلم)
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوہُمْ عَلَیْہَا وَھُمْ أَبْنَائُ عَشَرِ سِنِیْنَ وَفَرِّقُوا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ۔ (2)
حضرت عمرو بن شعیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا اپنے دادا سے روایت کر تے ہیں انہوں نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایاکہ جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو ان کو مار کر نماز پڑھاؤ۔ اور ان کے سونے کی جگہیں علیحدہ کرو۔ (ابوداود)

ضروری انتباہ :

(۱)…آہستہ قرآن پڑھنے میں اِتنا ضروری ہے کہ خُود سُنے اگر حروف کی تصحیح کی مگر اِسقدر آہستہ پڑھا کہ خود نہ سُنا تو نماز نہ ہوئی۔ (3)اور فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۶۵میں ہے : ’’إِنْ صَحَّحَ الْحُرُوف بِلِسَانِہِ وَلَمْ یُسْمِعْ نَفْسَہُ لَا یَجُوزُ وَبِہِ أَخَذَ عَامَّۃُ الْمَشَایِخِ ہَکَذَا فِی الْمُحِیطِ وَہُوَ الْمُخْتَارُ ہَکَذَا فِی السِّرَاجِیَّۃِ وَہُوَ الصَّحِیحُ ہَکَذَا فِی النُّقَایَۃِ‘‘.(4)

(۲)…سجدہ میں پائوں کی ایک انگلی کا پیٹ زمین سے لگنا شرط ہے اور ہر پائوں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ لگنا واجب ، تو اگر کسی نے اِس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پائوں زمین سے اُٹھے رہے تو نماز نہ ہوئی۔ (1)
(بہار شریعت، جلد سوم ص۲۷۹، فتاوی رضویہ ، جلد اول ، ص ۵۵۶)
اور اشعۃ اللمعات جلد اول ص:۳۹۴میں ہے کہ ’’ اگر ہر دو پائے بردارد نماز فاسد ست واگر یکپائے بردارد مکروہ است‘‘. (2)
اور درمختار مع ردالمحتار جلد اول ص:۳۱۳ میں ہے ’’وَوَضْعُ إصْبَعٍ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا شَرْطٌ‘‘۔ (3)
اور اِسی کتاب میں ص:۳۵۱ پر ہے ’’ فِیہِ یُفْتَرَضُ وَضْعُ أَصَابِعِ الْقَدَمِ وَلَوْ وَاحِدَۃً نَحْوَ الْقِبْلَۃِ وَإِلَّا لَمْ تَجُزْ وَالنَّاسُ عَنْہُ غَافِلُونَ‘‘ (4)
اور کنزالدقائق میں ہے ’’ وَوَجُہُ أَصَابِعِ رِجْلَیْہِ نَحْوَ الْقِبْلَۃِ ‘‘ اسی کے تحت بحرالرائق جلد اول ص:۳۲۱میں ہے ’’نَصَّ صَاحِبُ الْہِدَایَۃِ فِی التَّجْنِیسِ عَلَی أَنَّہُ إنْ لَمْ یُوَجِّہِ الْأَصَابِعَ نَحْوَہَا فَإِنَّہُ مَکْرُوہٌ ‘‘(5)
(۳)…اکثر عورتیں اپنی نادانی سے فرض واجب سب نمازیں بغیر عذر بیٹھ کر پڑھتی ہیں۔ ان کی نماز نہیں ہوتی اِس لیے کہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھنا فرض ہے ۔ اگر کسی بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوگئی ہیں لیکن خادمہ یا لاٹھی یا دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑی ہوسکتی ہیں تو فرض ہے کہ کھڑی ہو کر پڑھیں یہاں تک کہ اگر کچھ دیر ہی کے لیے کھڑی ہوسکتی ہیں۔ اگرچہ اتنا ہی کہ کھڑی ہو کر اللہ اکبر کہہ لیں تو فرض ہے کہ کھڑی ہو کر اتنا کہہ لیں پھر بیٹھ جائیں۔ (6) (بہار شریعت، جلد سوم ، ص ۳۷۷، بحوالہ غنیۃ)

اور فتاویٰ رضویہ جلدسوم، ص:۵۲ ، میں تنویر الابصار و درمختارسے ہے : ’’ إِنْ قَدَرَ عَلَی بَعْضِ الْقِیَامِ وَلَوْ مُتَّکِئًا عَلَی عَصًا أَوْ حَائِطٍ قَامَ لُزُومًا بِقَدْرِ مَا یَقْدِرُ وَلَوْ قَدْرَ آیَۃٍ أَوْ تَکْبِیرَۃٍ عَلَی الْمَذْہَبِ‘‘ ۔
آج کل عموماً مرد بھی ذرا سی تکلیف پر بیٹھ کرنماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ دیر تک کھڑے ہو کر ادھر ادھر کی باتیں کرلیا کرتے ہیں اِن کی نماز نہیں ہوتی اِس لیے کہ قیام کے بارے میں عورت مرد کا حکم ایک ہے ۔
(۴)… عورت نے اِتنا باریک دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھی کہ جس سے بال کی سیاہی چمکتی ہے تو نماز نہ ہوگی۔ جب تک کہ اس پر کوئی ایسی چیز نہ اوڑھے کہ جس سے بال کا رنگ چھپ جائے ۔ (1)
(بہار شریعت، جلد سوم، ص۲۵۱)
اور فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۵۴میں ہے : ’’ اَلثَّوْبُ الرَّقِیقُ الَّذِی یَصِفُ مَا تَحْتَہُ لَا تَجُوزُ الصَّلَاۃُ فِیہِ کَذَا فِی التَّبْیِینِ‘‘ ۔ (2)
٭…٭…٭…٭

Exit mobile version