نماز فاسد کرنے والی چیزوں کا بیان

نماز فاسد کرنے والی چیزوں کا بیان

مسئلہ۱: کلام مفسد ِنماز ہے یعنی نماز میں بولنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، چاہے جان بوجھ کر بولے یا بھولے سے ایک آدھ بات بولے یا زیادہ۔
مسئلہ۲: کلام وہی مفسد ہے جس میں اتنی آواز ہو کہ کم سے کم خود سن سکے، اگر کوئی مانع نہ ہو۔
مسئلہ۳: کسی کو بھولے سے بھی سلام کیا تو نماز جاتی رہی چاہے خالی اَلسَّلَام ہی کہا ہو عَلَیْکُم نہ کہہ پایا ہو۔
مسئلہ۴: زبان سے سلام کا جواب دیا تو نماز جاتی رہی اور ہاتھ یا سر کے اشارے سے دیا تو مکروہ ہوئی۔ (درمختار، عالمگیری)
مسئلہ۵: نماز میں چھینک آئے تواَلْحَمْدُ لِلّٰہ نہ کہے اگر کہہ دیا تو نمازنہ گئی۔ (عالمگیری)
مسئلہ۶: خوشی کی خبر کے جواب میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہا یا بُری خبر پراِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ پڑھا یا تعجب کی خبر سن کر سُبْحٰنَ اللّٰہ کہایا اَللّٰہُ اَکْبَر کہا تو نماز جاتی رہی ہاں اگر خبر کے جواب کا ارادہ نہ کیا تو نہ گئی۔
مسئلہ۷: کھکھارنے میں جب دو حرف نکلے جیسے اُخ تو یہ مفسد نماز ہے جب کہ نہ عذر ہو، نہ صحیح غرض ہو۔ اگر عذر سے ہو جیسے طبیعت نے مجبور کیا یا صحیح غرض کے لیے جیسے قرأ ت میں آواز صاف کرنے کے لیے یا امام کو غلطی پر اطلاع دینے کے لیے یا دوسرے کو اپنی نماز میں ہونے کی اطلاع دینے کے لیے ہو تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
مسئلہ۸: مقتدی نے اپنے امام کے سوا کسی اور کو لقمہ دیا، نمازجاتی رہی۔
مسئلہ۹: امام نے اپنے مقتدی کے سوا کسی اور کا لقمہ لیا، نماز فاسد ہوگئی۔

مسئلہ۱۰: آہ، اُوہ، اُف، تف یہ الفاظ دَرد یا مصیبت کی وجہ سے نکلے یا آواز سے رویا اور حروف پیدا ہوئے، اِن سب صورتوں میں نماز ٹوٹ گئی اور اگر رونے میں صرف آنسو نکلے اور حروف نہیں تو حر َج نہیں ۔ (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ۱۱: مریض کی زبان سے بے اختیارآہ، اُوہ نکلی تو نماز فاسد نہ ہوئی۔ یوہیں چھینک، کھانسی، جماہی، ڈکار میں جتنے حروف مجبوراً ( بے اختیار) نکلتے ہیں ، وہ معاف ہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ۱۲: پھونکنے کی اگر آواز پیدا نہ ہو تو وہ مثلِ سانس کے ہے کہ مفسد نہیں مگر قصدا ً کرنا مکروہ ہے اور اگر پھونکنے میں دو حرف پیدا ہوں ، جیسے اُف، تف تو مفسد نماز ہے۔ (غنیۃ)
مسئلہ۱۳: نماز میں قرآن، قرآن شریف سے یا محراب وغیرہ سے دیکھ کر پڑھنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ ہاں اگر پڑھتا تو ہے یاد سے اور نظر پڑتی ہے لکھے ہوئے پر، تو حرج نہیں ۔ (ردالمحتار)
مسئلہ۱۴: عملِ کثیر کہ نہ اَعمالِ نماز سے ہو، نہ نماز کی اصلاح کے لیے کیا گیا ہو، مفسد ِنماز ہے۔ عملِ قلیل مفسد نہیں جس کام کرنے والے کو دور سے دیکھ کر اس کے نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے بلکہ گمان غالب ہو کہ نماز میں نہیں تو وہ عملِ کثیر ہے اور اگر دور سے دیکھنے والے کو شبہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں تو یہ عملِ قلیل ہے۔
مسئلہ۱۵: کرتا یا پاجامہ پہنایا تہبند باندھا تو نماز جاتی رہی۔
مسئلہ۱۶: نماز کے اندر کھانا پینا مطلقاً نماز کو فاسد کردیتا ہے جان کر ہو یا بھول کر ہو، تھوڑا ہو یا زیادہ ہو یہاں تک کہ اگر تل بلا چبائے نگل لیا یا کوئی بوند منہ میں گری اور نگل لیا نماز جاتی رہی۔

مسئلہ۱۷: موت، جنون، بے ہوشی سے نماز جاتی رہتی ہے۔ اگر وقت میں آرام ہو جائے تو ادا پڑھے اور اگر وقت کے بعد آرام ہو تو قضا پڑھے، جب کہ جنون و بے ہوشی ایک دن رات سے زیادہ نہ ہو یعنی نماز کے چھ وقت کامل تک برابر نہ رہا ہوکہ اگر چھ وقت کامل تک برابر رہے قضا واجب نہیں ۔ (عالمگیری، درمختارو ردالمحتار)
مسئلہ۱۸: قصداً وُضو توڑا یا کوئی سبب غسل کا پایا گیا تو نماز جاتی رہی۔
مسئلہ۱۹: کسی رُکن کو ترک کیا جب کہ اُس کو اُسی نماز میں ادا نہ کرلیا ہو، نما زجاتی رہی۔
مسئلہ۲۰: بلا عذر نماز کی کسی شرط کو ترک کیا تو نماز ٹوٹ گئی۔
مسئلہ۲۱: قعدہ اخیرہ کے بعد سجدۂ نماز یا سجدۂ تلاوت یاد آیا اور اس کو ادا کیا اور ادا کرنے کے بعد پھر قعدہ نہ کیا تو نماز نہ ہوئی۔
مسئلہ۲۲: کسی رکن کو سوتے میں ادا کیا تھا اُس کا اِعادہ نہ کیا، نماز نہ ہوئی۔

Exit mobile version