حکایت نمبر466: مُردوں کو زندوں کے نیک اعمال کا فائدہ
حضرتِ سیِّدُناعثمان بن سَوْدَہ طُفَاوِی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی والدۂ محترمہ بہت زیادہ عابدہ وزاہدہ تھیں،کثرتِ مجاہدات کی وجہ سے ”راہبہ”مشہورتھیں۔جب موت کاوقت قریب آیاتوبارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح عرض گزارہوئیں:
”اے میرے اعمال کے مالک عَزَّوَجَلَّ! اے میری اُمیدگاہ !اے وہ ذات جس پرقبل ازموت وبعداَزموت میرا اعتماد وبھروسہ ہے! اے میرے خالق ومالک عَزَّوَجَلَّ ! موت کے وقت مجھے رُسوانہ کرنا، قبرمیں مجھے بے یارومددگارنہ چھوڑنا۔”انہی الفاظ پر اس کاانتقال ہوگیا۔ان کے بیٹے حضرتِ سیِّدُناعثمان بن سَوْدَہ طُفَاوِی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں:” اپنی والدہ کے وصال کے بعد میں ہرجمعہ اُن کی قبرپرجاتا،ان کے لئے اورتمام اہلِ قبورکے لئے دعائے مغفرت کرتا۔ایک مرتبہ خواب میں والدہ کو دیکھاتوعرض کی: ”اے میری پیاری امی جان!آپ کاکیاحال ہے؟”کہا:”میرے بچے!بے شک موت بڑی دردناک ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے میراانجام اچھاہوا،میرے لئے خوشبوئیں،باغات اوربہترین نرم وملائم بسترہیں جن پر سُنْدُس اوراِسْتَبرَق(۱) کے تکیے ہیں،ان میں روزِ محشرتک انہی آرام دہ نعمتوں میں رہوں گی۔”میں نے کہا:”پیاری امی جان! کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟” کہا: ”جی ہاں۔ ” میں نے پوچھا:”بتائیے کیاحاجت ہے؟”کہا:”میری قبر پر حاضری اورہمارے
لئے دعائے مغفرت کرنا ہرگز تر ک نہ کرنا۔ کیونکہ جب تُوجمعہ کے دن میری قبر پر آتاہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے اورمجھ سے کہا جاتا ہے:”اے راہبہ!دیکھ تیرابیٹاتیری قبر پر آیا ہے۔” یہ سن کرمیں بھی خوش ہوتی ہوں اور میرے پڑوسی مُردے بھی خوش ہوتے ہیں۔لہٰذا میری قبر کی زیارت ہرگزترک نہ کرنا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔یہ دونوں لفظ ریشمی لباس کے لئے بولے جاتے ہیں۔ سندس باریک ریشمی کپڑے کو اور استبرق موٹے ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں۔