بعض صورتوں میں نفع بخش اور بعض میں نقصان دہ کلام:
اس طرح کا کلام وہی کرے جو اس کی باریکیوں کو سمجھتا ہو وگرنہ خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے ۔ حضرت سیدنا امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”جب تم کوئی بات کرنے لگو تو پہلے اس پر غور کر لو ، اگر تمہیں کوئی فائدہ نظر آئے تو کہہ ڈالو اور اگر تم شش وپنج میں پڑ جاؤ تو خاموش رہو یہاں تک کہ تم پر اس کی افادیت کھل جائے ۔”(المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر ،ج۱، ص ۱۴۵)
جبکہ حضرت سیدنا ابراہیم تیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ”جب مؤمن بات کرنا چاہتا ہے تو دیکھتا ہے ،اگر کوئی فائدہ محسوس ہوتو بات کرتا ہے ورنہ خاموش رہتا ہے ۔”
(احیاء العلوم ،کتاب آفات اللسان،ج ۳،ص۱۴۲ )
اس کی تفصیل کے لئے سیدنا امام محمد غزالی علیہ الرحمۃ کی مایہ ناز تصنیف احیاء العلوم (جلد سوم )کا مطالعہ فرمائیں۔
فضول کلام :
اس سے مراد وہ کلام ہے جس سے کوئی دنیوی یا اُخروی فائدہ حاصل نہ ہو ۔ ایسے کلام میں مشغول ہونے سے احتراز ضروری ہے کیونکہ اس گفتگو میں صرف ہونے والے وقت کو نفع بخش کلام میں خرچ کیا جاسکتاتھا اور نفع سے محرومی بھی ایک طرح کا نقصان ہی ہے ۔لہذا!انسان کو چاہے کہ یاتو اچھا کلام کرے ورنہ خاموش رہے ،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا : ”کسی شخص کا بیکار باتوں کو چھوڑ دینا حُسنِ اسلام میں سے ہے۔”
(سنن الترمذی ، کتاب الزھد، رقم الحدیث ۲۳۲۴،ج۴،ص۱۴۲)
جبکہ حضرتِ سیدنا عبداللہ بن مسعودرضي الله عنه فرماتے ہیں :”میں تمہیں فضول کلام سے ڈراتا ہوں ،انسان کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے جو اس کی حاجت کے مطابق ہو۔”(احیاء العلوم ،کتاب آفات اللسان ،ج۳،ص ۱۴۲)
اور امام مالکرضي الله عنهسے روایت ہے کہ حکیم لقمان رضي الله عنهسے پوچھا گیا،”ہم آپ کا جو مقام دیکھ رہے ہیں،آپ اس پرکس طرح پہنچے؟”انہوں نے فرمایا،”سچی بات کرنے،امانت ادا کرنے اوربےکار گفتگوچھوڑ دینے سے۔”
(المؤطا للامام مالک، کتاب الکلام ،باب ماجاء فی الصدق والکذب ،رقم ۱۹۱۱،ج۲،ص۴۶۷)
فضول گفتگو کی چند مثالیں :
(۱) ”یہ گاڑی کتنے میں لی ؟”
یادرہے کہ یہ سوال اس وقت فضول کہلائے گا جب اس سوال کے پیچھے کوئی واضح مقصد نہ ہو چنانچہ اگر کوئی اس لئے پوچھے کہ وہ بھی گاڑی خریدنے کی خواہش رکھتا ہے اور اندازہ کرنا چاہے کہ آیا میری قوتِ خرید اتنی ہے یا نہیں کہ میں یہ گاڑی خرید سکوں تو اب یہ سوال فضول نہیں کہلائے گا ۔واللہ تعالیٰ اعلم
(۲) ”آج بہت گرمی ہے ۔”
لیکن اگر کوئی اس نیت سے یہ الفاظ کنایۃ بولے کہ میزبان ٹھنڈا پانی پلادے یا پنکھا چلادے اور اسے سوال بھی نہ کرنا پڑے تو یہ سوال فضول نہیں کہلائے گا۔جیسا کہ منقول ہے کہ مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کو جب پیاس لگتی تو فرماتے ”مجھے پیاس لگی ہے ۔”خدمت گار معاملہ سمجھ کر آپ کی بارگاہ میں پانی حاضر کردیتے اور آپ کو سوال بھی نہ کرنا پڑتا ۔
(۳) ”نہ جانے یہ ٹریفک کیوں جام ہوجاتا ہے ۔”
(۴) ”نہ جانے یہ سڑکیں کب مکمل ہوں گی؟”
(۵) ”نہ جانے یہ ٹرین کب منزل پر پہنچے گی ؟”
فضول گفتگو کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے امیرِ اہل ِ سنت حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی کے بیان ”فضول گفتگو کی مثالیں”کا کیسیٹ سماعت فرمائیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
کلام کی مذکورہ بالا تقسیم اور اس کی تفصیل سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ قلتِ کلام
میں ہی عافیت ہے کیونکہ کلامِ کثیر کی صورت میں زبان کے نافرمانی میں مبتلاء ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ حضرتِ سیدنا ابوہریرہرضي الله عنه سے روایت ہے کہ سرورِ کونین صلي الله عليه وسلمنے ارشاد فرمایا: ”جس کا کلام زیادہ ہوتاہے اس کی خطائیں بھی زیادہ ہوتی ہیں ۔”(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب ، رقم الحدیث ۵۱،ج۳،ص۳۴۵)