حکایت نمبر229: مصیبت زدوں کا مَسکَن
حضرتِ سیِّدُناابوعبداللہ بن خَفِیْف علیہ رحمۃ اللہ الرفیق سے منقول ہے کہ حضرت سیِّدُناابوطالب خَزْرَج بن علی شِیْراز تشریف لائے ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بہت زیادہ بیمارتھے،میں ان کی خدمت کیا کرتا۔ ان دنوں میں بہت زیادہ ریاضت کیا کرتا تھا، اور باقلاء(یعنی مٹراور لوبیا) کی چند خشک پھَلیَّاں چباکرگزارہ کرلیتا۔میں دانتوں سے باقلاء کی خشک پھلیاں کاٹنے لگا تو اس کی
آواز حضرتِ سیِّدُنا خزرج بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے سن لی۔ انہوں نے پوچھا: ”یہ کیا معاملہ ہے؟”میں نے انہیں بتایا:” ان دنوں میں ریاضت کررہاہوں اور افطار کے وقت صرف باقلاء کی چند پھلیاں کھا لیتا ہوں۔”
انہوں نے روتے ہوئے فرمایا:”اے ابو عبداللہ! اپنے اس فعل پر ثابت قدم رہنا۔پہلے میں بھی تمہاری طرح ریاضت کیا کرتا تھا ۔ایک رات اپنے دوستوں کے ساتھ کسی دعوت پر بغدادگیا۔وہاں ہماری ضیافت میں اونٹ کابھنا ہواگوشت پیش کیا گیا۔ سب کھانے لگے لیکن میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ جب میرے دوستوں نے دیکھا تو کہا: تم کیوں نہیں کھاتے ؟بلا تکلف کھاؤ۔ میں نے ان کے اصرار پر ایک لقمہ کھالیا۔اس کے بعد سے میں ایسا محسوس کرتاہوں جیسے چالیس سال پیچھے چلا گیاہوں۔” ابنِ خفیف علیہ رحمۃ اللہ اللطیف فرماتے ہیں :” پھر حضرتِ سیِّدُنا خزرج بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی باہر تشریف لے گئے اورایک دیہات میں جاکر پرانے سے مکان میں رہائش اختیار کرلی اورپورے گھرکو اندر اورباہر سے سیاہ کردیا ۔اور فرمایا: ”مصیبت زدوں کی رہائش گاہیں ایسی ہی ہوتی ہیں ، پھراسی مکان میں اپنی ساری زندگی گزاردی اوریہیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)