مہر فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا
حضرت سیدہ فاطمہ زہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا کا مہر چار سو درہم(1) یعنی ایک سو ساڑھے سولہ تولہ چاندی تھی جس کی قیمت فی تولہ پانچ روپیہ کے حساب سے پانچ سو ساڑھے بیاسی روپیہ ہوئی۔
مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد سوم ص: ۴۴۷ میں ہے :
’’نَقَلَ ابْنُ الْہُمَام أَنَّ صَدَاقَ فَاطِمَۃَ کَانَ أَرْبَعَ مِئَۃ دِرْہَمٍ‘‘ ۔ (2)
یعنی امام ابن الہمام صاحبِ فتح القدیر نے نقل فرمایا کہ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا کا مہر چار سو درہم تھا ۔
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ: ’’مہر فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا چہار صد درہم بود‘‘ ملخصاً۔ (3) (اشعۃ اللمعات، جلد ثالث، ص۱۳۷)
اِنتباہ :
(۱)…مہر کم سے کم یعنی ابتدائی مہر دس درہم ہے ۔ در مختار باب المہر میں ہے : ’’أَقَلُّہُ عَشَرَۃُ دَرَاھِم‘‘ یعنی مہر کی مقدار کم از کم دس درہم ( ۲ تولہ _۷۲۱ ماشہ چاندی) ہے ۔ (4)
جس کی قیمت پانچ روپیہ فی تولہ کے حساب سے چودہ روپیہ اٹھاون پیسہ ہوئی۔ اور اگر چاندی کا بھائو چھ روپیہ ہوجائے تو دس درہم کا ساڑھے سترہ روپیہ ہوجائے گا ، خلاصہ یہ کہ چاندی کے نرخ کی کمی بیشی پر روپیہ سے ابتدائی مہر کی مقدار کی کمی بیشی ہوتی رہے گی۔ لہذا اس گرانی کے زمانہ میں مہر کی کم سے کم مقدار تین روپیہ
ساڑھے دس آنہ سمجھنا غلطی ہے ۔
(۲)…زیادتی کی جانب مہر کی کوئی مقدار معین نہیں ہزار دس ہزار بلکہ چالیس پچاس ہزار اور اس سے زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں لیکن بہت زیادہ مہر باندھنا بہتر نہیں۔
(۳)…مہر کی تین قسمیں ہیں ۔ (۱) معجل (۲) مؤجل (۳) مطلق ۔ مہر معجل وہ مہر ہے کہ خلوت سے پہلے دینا قرار پایا ہو ۔ اور مؤجّل و ہ مہر ہے کہ جس کی ادائیگی کے لیے کوئی میعاد مقرر ہو۔ او رمطلق وہ مہر ہے کہ نہ خلوت سے پہلے دینا قرار پایا ہواور نہ کوئی میعاد مقرر ہو اور یہی ہمارے ہندوستان میں عام طور سے رائج ہے ۔
(۴)…مہر معجل وصول کرنے کے لیے عورت اپنے کو شوہر سے روک سکتی ہے اور مؤجل میں میعاد پوری ہونے کے بعد روک سکتی ہے پہلے نہیں روک سکتی۔ اور مہر مطلق وصول کرنے کے لیے کبھی نہیں روک سکتی۔
(۵)…ہندوستان میں عام دستور ہے کہ عورت جب مرنے لگتی ہے تو اس سے مہر معاف کراتے ہیں حالانکہ مرض الموت میں معافی دیگر ورثہ کی اجازت کے بغیر معتبر نہیں(1)یعنی بیوی نے معاف بھی کردیا تو ایسی حالت میں ورثہ کی اجازت کے بغیر معاف نہیں ہوگا۔
٭…٭…٭…٭
’’عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ‘‘۔ (1)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ ولیمہ کرو اگرچہ ایک ہی بکری کا ہو۔ (بخاری، مسلم)
’’عَـنْ أَبِی ہُـرَیْـرَۃَ قَـالَ قَـالَ رَسُـوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِیْمَۃِ یُدْعَی لَہَا الْأَغْنِیَائُ وَیُتْرَکُ الْفُقَرَاء‘‘۔ (2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ سب سے برا کھانا ولیمہ کا وہ کھانا ہے جس کے لیے صرف مالدار لوگ بلائے جائیں اور غریب محتاج لوگوں کو نہ پوچھا جائے ۔ (بخاری، مسلم)
’’ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ دُعِیَ فَلَمْ یُجِبْ فَقَدْ عَصَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَمَنْ دَخَلَ عَلَی غَیْرِ دَعْوَۃٍ دَخَلَ سَارِقًا وَخَرَجَ مُغِیْرًا‘‘۔ (3)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جس شخص کو کھانے کی دعوت دی جائے اور وہ (بے وجہ شرعی) دعوت قبول نہ کرے توا س نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ اور جو بغیر دعوت کے پہنچ جائے تو وہ چور کی طرح گیا اور ڈاکو بن کر نکلا۔ (ابوداود)
٭…٭…٭…٭