مزید عورت کی زبوں حالی کے واقعات
مشکل سے کوئی مسئلہ ایساملے گا جس میں اس قدر کثرت کے ساتھ لوگوں نے اتفاق رائے سے کام لیا،جتنا عورت کے مسئلہ میں وہ متّحدُالخیال ہیں ۔ مطالعۂ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے شاذ صورتوں کے ہر شخص نے اِسی پر زور دیا ہے کہ عورت کی فطرت مرد کے مقابلہ میں بہت کمزور اورادنیٰ ہے ،حتیٰ کہ زمانۂ قدیم میں یہی اَمْرمَابِہِ النَّزَاع تھا کہ عورت کے پاس نفس بھی موجود ہے یانہیں۔
ہند ،چین ،یونان وروما میں بھی جوتہذیب وشائستگی کے گہوارے سمجھے جاتے تھے ۔عورت سے احتراز کرنے کی تعلیم دی جاتی تھی جیسا کہ اِن کی روایاتِ علم ُالاصنام سے ثابت ہوتا ہے۔چنانچہ خود جیوپٹرسے ایک دیوتا نے پوچھاکہ ’’سلسلۂ تناسل کے مسئلہ میں تو ہمیں عورت کی طرف سے بے نیاز نہیں بنادیتا ‘‘ (اورشاید اِسی غرور کی سزاہے کہ اب میکانکی سے توالد وتناسل کاطریقہ زیر غور ہے جس میں مرد کی ضرورت بالکل باقی نہیں رہتی ) ایک جگہ اوراِسی قسم کی درخواست پیش کی گئی کہ ’’اِس آفتاب کے نیچے مردوں پر عورتوں کی بَلا کیوں مُسلط کی گئی ہے۔‘‘
عورت سانپ سے بدتر
بروایت انڈرومیکی ‘یونانیوں کاخیال عورت کے متعلق اُن کے اِس فقرہ سے اچھی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ ’’آگ سے جل جانے اورسانپ کے ڈسنے کاعلاج ممکن ہے لیکن عورت کے شر کا مَداوا محال ہے۔‘‘
عورت فتنہ وفساد
سُقراط کہتا ہے کہ عورت سے زیادہ فتنہ وفساد کی چیز دنیا میں اورکوئی نہیں۔وہ دفلی کادرخت ہے کہ بظاہر بے انتہا خوبصورت وخوش نما نظر آتا ہے ،لیکن جب کوئی چڑیا اِسے کھاتی ہے تو مرجاتی ہے۔افلاطون کاقول ہے کہ’’ جتنے ذلیل وظالم مرد ہیں ، وہ سب نتائج کے عالَم میں عورت ہوجاتے ہیں ۔ ‘‘ پھر عورت کی ذلّت کاخیال صرف حکماء وفلاسفر ہی کے دماغ میں مرکوز نہ تھا ،بلکہ مذہبی دنیا میں بھی اِس کے ساتھ یہی سلوک کیاجاتاتھا ۔چنانچہ قدیس برنار کہتا ہے کہ ’’عورت شیطان کا آلہ ہے ‘‘ ۔
عورت امن کی دشمن
یوحنا دمشقی کا قول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ: ’’عورت امن وسلامتی کی دشمن ہے۔ ‘‘بلکہ روایات انجیل کے مطابق ‘حضرت عیسیٰ ںکاخود اپنی ماں کو جھڑک دینا ظاہر ہے۔
جانور کی طرح ذبح کی جاتیں
یورپ اورعلی الخصوص رومۃ الکبریٰ جوعیسویت کا مرکز تھا اورجہاں مبلغین اَمن کی جماعتیں ہرجگہ تعلیماتِ مسیح کی تبلیغ کرتی ہوئی نظر آتی تھیں، اِس لحاظ سے اِس قدر گِرا ہوا تھا کہ مشکل سے اِس کی کوئی نظیر مل سکتی ہے ۔یہاں عورتوں کی حالت لونڈیوں سے بدتر تھی ،اِن پر ایک جانور کی طرح حکومت کی جاتی تھی اوریقین کیا جاتا تھا کہ اِس طبقہ کوآرام وآسائش کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ ذرا ذرا سے قصور میں یہ ذبح کردی جاتی تھیں اورمحض بے بنیاد الزامات پر آگ میں
ڈال دی جاتی تھیں۔سولہویں اورسترہویں صدی عیسوی میں جب جادو کا اعتقاد نہایت رُسوخ کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہوگیا تھا ،اُس وقت اکثر صورتوں میں غریب عورت ہی پر الزام رکھا جاتاتھا اوروہی ظلم کا شکا رہوتی تھی۔
عورتیں جلائی جاتیں
الگزنڈر ششم(Alexander VI) نے۱۴۹۴ ء میں ،لوئی دہم نے ۱۵۲۱ء میں،اڈرین ششم نے ۱۵۲۲ ء میں جس بے دردی کے ساتھ عورتوں اور اُن کے بچوں کو سَحَر کے اِلزام میں ذبح کیا ، اِس سے تاریخ یورپ کے صفحات رنگین ہیں۔ ملکۂ الزبتھ اور جیمس اوّل کے عہد میں ہزاروں عورتوں کا اِس جرم میں جلایا جانا اور لا نگ پارلیمنٹ کے زمانہ میں سولی دیا جاناتاریخ کے کھلے ہوئے واقعات ہیں۔
عورتوںپرظلم
اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ جیمس ششم ‘جب ڈنمارک سے شادی کر کے واپس آیا تو اُس سے کہا گیا کہ چند عورتوں نے راستہ میں جمع ہوکر طوفان برپا کرنے کا سحر کیا ،چنانچہ یہ عورتیں گرفتار کی گئیں اور اقبالِ جرم کے لیے انھیں جسمانی سزائیںدی جانے لگیں اور جب اِس تکلیف سے عاجز آکر انھوں نے اقبال کیا تو سب کی سب ذبح کر دی گئیں ۔
عورتیںزندہ جلا دی گئیں
اِس طرح اِنگلستان میں عورتوںکو سزا دینے کے لیے ایک خاص مجلس وضع کی گئی جس نے عورتوںپر ظلم کرنے کے لیے جدیدقوانین مرتب کئے ـ ،اَلغرض سارے یورپ نے اِس صنف پر سِتم کرنے کا عہد کر لیا تھا جس کا نتیجہ بقول ڈاکٹر اسپرنگ یہ ہوا کہ عیسائیوں نے نوّے (۹۰) لاکھ عورتوںکو زندہ جلادیا ــــ ۔
عورتیں شیطان ہیں
سرزمین عرب میں بھی جہاں آخر کار نبی آخرالزماں انے ادیانِ باطلہ کی اِس فرو گذاشت کی پوری تلافی کر نے کا عزم اُستوار کر لیا ‘عورت کا شمار بد ترین مخلوقاتِ عام میں سے تھا چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے :
ان النساء شیٰطین خلقن لنا
نعوذ باللّٰہ من شرالشیاطین
جب رئیس بہراہ کی لڑکی نے انتقال کیا تو ابوبکر خوارزمی نے اِن الفاظ میں اظہارِ تعزیت کیا کہ:اگرتم اِس کے ستر وحجاب اوراِس کی صفاتِ حمیدہ کا ذکر کرتے تو تمہارے لیے بہ نسبت تعزیت کے تہنیت زیادہ موزوں ہوتی ، کیونکہ ناقابل اظہار چیزوں کا چُھپ جانا ہی بہتر ہے اورلڑکیوں کا دفن کرنا ہی سب سے بڑی فضیلت ہے ۔ ہم ایسے زمانہ میں ہیں کہ اگر کسی شخص کی بیوی، اس سے پہلے مرجائے تو گویا اس کی نعمتیں مکمل ہوگئیں اوراگر بیٹی کو اُس نے قبر میں اُتاردیا توگویا اپنے دامادسے پورا انتقام لے لیا۔
ایک شاعر کا قول ہے کہ :
تھوی حیاتی واھوی موتھاشفقا
والموت اکرم نزال علی الحرم
(وہ میری زندگی چاہتی ہے اورمیں ازروئے شفقت اُس کی موت چاہتاہوں کیونکہ موت عورت کے حق میں عزیز ترین مہمان ہے)
اِن کے علاوہ بے شمار ذلتیں عورت کی قسمت میں لکھی تھیںجنھیں وہ بے چاری خاموشی سے برداشت کرتی رہی۔لیکن اسلام میں جتنی عورت کو اہمیت دی گئی ہے‘کسی مذہب میں اِس کو نصیب ہونے کا امکان تک نہیں۔لیکن افسوس اُس خاتو ن پر کہ وہ اسلام کے احسانات بھلا کر اُن دشمنانِ اسلام کے گُن گاتی ہے جنھوں نے اُسے ذلّت وخواری کے گھاٹ اُتار رکھا تھا،یعنی اسلام دشمن انگریز کی متوالی ہے اوراسلام سے سخت نفرت ۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون ْ