مزاروں پر میلے عرس رچانے اور گانے بجانے ، نذریں چڑھانے اور نیازیں کرنے کے متعلق

سوال :۔  مزاروں پر میلے عرس رچانے اور گانے بجانے ، نذریں چڑھانے اور نیازیں کرنے کے متعلق ائمہ اربعہ میں سے کم از کم کسی ایک امام کا بھی مستند قول ہے تو تحریر فرمایئے ؟

جواب :۔  تفسیر در منشور ، تفسیر کبیر میں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہر سال کے بعد شہداء احد کے قبروں کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور آپ کے بعد خلفاء اربعہ بھی جاتے تھے ، اسی کا نام ہے عرس ، عرس بھی ہر سال کے بعد کسی بزرگ یا ولی کے قبر کی زیارت کے لئے ہوتاہے ، یا صرف ایصال ثواب کے لئے ہوتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشاد ہے : قبروں کی زیارت کرو تاکہ تم کو موت یاد آجائے ، تم عمل صالحہ کرو عرس میں بھی قبروں کی زیارت ہوتی ہے اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعمیل بھی قبروں کی زیارت کرنا سنت ہے ۔
نذر بفتح نؔ اس کے چار معنیٰ ہے ، نیاز بروزن حجاز ، بکسرنؔ اس کے تین معنیٰ ہے ، لغت میں دیکھو ، ان دونوں کا ایک معنیٰ تحفہ اور ہدیہ ہے ، یہ سلف سے خلف تک قبول کرتے آئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ 
واٰلہ وسلم خود اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی قبول کرتے آئے ، بزرگان دین اور حاکم وقت بھی اس کو قبول کرتے آئے گذرے ہوئے بزرگوں کے ایصال ثواب اور فاتحہ اس کو بھی نذر و نیاز کہتے ہیں ایصال ثواب سنت جماعت کے نزدیک ثابت ہے ، چنانچہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میری ماں کا انتقال ہواہے ، ان کے لئے کیا صدقہ نیک کروں ؟ فرمایا: الماء ، یعنی پانی پھر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوایا ، فرمایا : ھذا بیوالام ، یہ سعد رضی اللہ عنہ کے ماں کے لئے ، مدینہ میں یہ کنواں زمانے تک مشہور تھا دیکھو اس پانی پر نام ہوا غیر اللہ کا ، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں جن لوگوں نے اس کنویں کا پانی پیا کیا تمہارے نزدیک مسلمان ہیں یا نہیں ؟ تمہارے نزدیک جو غیراللہ کھائے وہ حرام کھانے والا کافر ہے ، العیاذ باللہ تمہارے نزدیک یہ سب صحابی کافر ٹھہرے ۔
جب یہاں نص موجود ہے تو دوسروں کے قول کی کیا ضرورت ہے ؟ چنانچہ ہم نے اوپر لکھا ہے کہ آپ پر لازم اور واجب ہے کہ قرآن و حدیث سے ثابت کریں ، عرس کرنا جائز ہے ، اپنی طرف سے کسی چیز کو ناجائز کہنا ہرگز جائز نہیں اور ناجائز کرنا کسی چیز کو یہ کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ہے ، جس نے اپنی طرف سے کسی چیز کو ناجائز کیا اس نے الوہیت اور نبوت میں اپنے آپ کو شریک کیا ، گویا وہ العیاذ باللہ خداجیسا یا نبی جیسا ہوا ، لہٰذا ہر مسلمان کو لازم اور واجب ہے کہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام ناجائز نہ کہے ، حرام کرنے کے لئے دلیل قطعی کی ضرورت ہے ، مباح اور جائز کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ اصل شئے میں اباحت جواز ہے ۔
فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آخری زمانے میں دجال و کذاب تمہارے پاس ایسی حدیثیں لے کر آئیں گے جونہ تم نے سنی ہوگی نہ تمہارے باپ دادا نے سنی ہوگی ، بچاؤ تم اپنے آپ کو ان سے اور ان کو بچاؤ اپنے آپ سے تاکہ تم کو گمراہ نہ کریں گے اور فتنہ و فساد میں نہ ڈالیںگے یعنی ان کو تم اپنے پاس آنے نہ دو نہ تم ان کے پاس جاؤ اسی واسطے وہابیہ کو مسجد سے نکالا جاتا ہے ، اجماع ہوا امت کا انہی چار مذہبوں پر ، اس کے واسطے جتنے فرقے ہیں خراہ و اہلِ قرآن یعنی چکڑالوی یا اہل حدیث یعنی 
وہابیہ یہ سب فرقے جہنمی اور ناری ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ترہتّر (73) فرقے ہوجائیں گے اس میں سے ایک ہی فرقہ جنتی ہوگا ، باقی تمام جہنمی ، یہ جنتی فرقہ ہے جس کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں جو ان چار مذہبوں پر منحصر ہیں باقی سب کے سب ناری ہیں ، جس کے اندر وہابیہ تمام بھی آگئے اگر وہابیہ بہتر سمجھیں تو اپنے عقائد فاسدہ سے تائب ہوکر ناریوں سے نکل کر جنتیوں کے ساتھ مدغم ہوجائیں وہابیہ کے لئے بہتر ہوگا ، آئندہ وہابیہ کو اختیار ہے
Exit mobile version