حکایت نمبر416: مدد گار اژدھا
حضرت ابو عبداللہ بن خَفِیف علیہ رحمۃاللہ الرفیق کہتے ہیں:میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابوحسین مُزَیِّن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِيْمًا میں یہ فرماتے سُنا:”ایک مرتبہ میں” تبوک” کے ویرانوں کی طر ف گیا، راستے میں ایک کنواں نظر آیا، پانی پینے کی غرض سے کنوئیں کے قریب گیاتو میرا پاؤں پِھسل گیا اور میں کنوئیں میں گرگیا۔ وہاں ایک وسیع ابھری ہوئی جگہ دیکھی تو اس پربیٹھ گیاتاکہ اگر میرے جسم یا کپڑوں وغیرہ پر کوئی نجس شئے لگی ہوئی ہو تو پانی اس سے محفوظ اور لوگوں کے لئے قابلِ استعمال رہے۔ کنوئیں کی گہرائی اور وحشت کے باوجود میرا دل بالکل مطمئن تھا، مجھے کسی قسم کا کوئی خوف محسوس نہ ہورہا تھا۔ وہاں بیٹھے
ہوئے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کسی شئے کی آہٹ سنائی دی۔ میں سوچنے لگا کہ یہ آواز کیسی ہے؟ جب اوپر دیکھا تو ایک بہت بڑا اژدھا میری جانب آرہا تھا۔
لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! اس خطرنا ک اژدھے کو دیکھ کر بھی میرا دل مطمئن تھا۔ خوف و وحشت کا نام تک نہ تھا۔ اژدھا قریب آیا اور میرے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گیا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ کنوئیں سے باہر کیسے نکلا جائے؟ اژدھے نے اپنی دم میرے گرد لپیٹی اور مجھے کنویں سے باہر نکال دیاپھر میرے جسم سے علیحدہ ہو کر لمحہ بھر میں میری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا خوب اِدھر اُدھر دیکھامگروہ کہیں نظر نہ آیا۔ نہ جانے اس مددگار اژدھے کو زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟پھر میں اٹھ کھڑا ہوا اور اس غیبی امدادپر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرتا ہوا اپنی منزل کی جانب چل دیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)