مچھلیوں کاشکاری
راہب نے کہا:”مشہورہے کہ ایک شکاری کے جال میں بہت بڑی مچھلی پھنسی تواس نے کہا:”اسے کھانے کامجھ سے زیادہ کوئی حق دارنہیں۔” پھراسے خیال آیاکہ یہ مچھلی اپنے فلاں پڑوسی کوتحفہ دے دینی چاہے۔چنانچہ وہ مچھلی کواپنے صاحبِ حکمت پڑوسی کے پاس لے گیا۔اس نے اس کی قیمت دیناچاہی توشکاری نے انکار کر د یا ۔ پڑوسی نے کہا:”تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟کیاتمہاری کوئی حاجت ہے جسے میں پوراکروں؟ ”اس نے کہا:”نہیں، میں کچھ نہیں چاہتا،میں نے توایثار کی نیت کی تھی ۔”پڑوسی نے کہا:”میں نے تمہاراتحفہ قبول کیا۔”پھراس نے خادم کوحکم دیا کہ یہ مچھلی اٹھا ؤ ا ورہمارے فلاں معذورومسکین پڑوسی کودے آؤ۔جب شکاری نے یہ معاملہ دیکھاتوسرپکڑکررہ گیااورکہا:” افسوس ہے اس پر،جس نے اپنی مچھلی نہ کھائی اور وہ اس کے پاس پہنچ گئی جو اسے سب سے زیادہ ناپسند تھا”۔جب صاحبِ حکمت پڑوسی نے شکاری کی یہ بات سنی توکہا:”میں نے وہ مچھلی، مسکین پرصدقہ کرکے اپنی محتاجی کے دن کے لئے ذخیرہ کر لی ہے ۔”شکاری نے کہا:”وہ کون سادن ہے؟”حکیم پڑوسی نے کہا:”وہ قیامت کادن ہے لوگ اس دن اپنے اپنے ذخیر و ں کے محتاج ہوں گے۔”یہ سن کرشکاری بہت زیادہ متعجب ہوااورواپس اپنے گھرچلاآیا۔”
راہب نے کہا:”مجھے تعجب ہے اس امرپرجس نے سمجھداروں اورجاہلوں کودھوکے میں ڈال دیا۔یہاں تک کہ وہ لمبی لمبی امیدوں اورلالچ کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ،جیساکہ ” یہودی ونصرانی ”ایک ساتھ ہلاک ہوئے۔” پوچھا:”ہمیں بتائیے کہ ان دونوں کی ہلا کت کس طرح ہوئی؟”