ماں کی دعا کا اثر
حضرت سیدنا عبدالرحمن بن احمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت حضرت سیدنا بقی بن مخلدعلیہ رحمۃ اللہ الصمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئی او ر بڑے غمگین انداز میں یوں عرض گزار ہوئی:” حضور! میرے جوان بیٹے کو رومیوں نے قید کرلیا ہے او روہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ان کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہا ہے۔ میرے پاس اِتنی رقم نہیں کہ مَیں فدیہ
دے کر اسے آزاد کر الوں، میری ملکیت میں صر ف ایک چھوٹا سا گھر ہے جسے میں بیچ بھی نہیں سکتی ، اپنے لختِ جگر کی جدائی کے غم نے میرے دن کا سکون اور راتوں کی نیند اُڑا دی ، مجھے ایک پَل سکون میسر نہیں، خدا را! میری حالتِ زار پر رحم فرمائیں، اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کسی صاحبِ حیثیت سے کہہ دیں گے تو وہ فدیہ دے کر میرے بیٹے کو آزاد کرالے گا اور اس طر ح مجھے قرار نصیب ہوجائے گا ۔”
اس بوڑھی ماں کی یہ مامتا بھری باتیں سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ”محترمہ !اللہ عزوجل پر بھروسہ رکھووہ ضرور کرم فرمائے گا ، میں آپ کے معاملے کو حل کرنے کو شش کرتا ہوں ، آپ بے فکر ہوجائیں۔” جب دکھیاری ماں نے ڈھارس بندھانے والی یہ باتیں سنیں تو دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے رخصت ہوگئی ۔
راوی کہتے ہیں کہ جب وہ بڑھیا وہاں سے چلی گئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سرجھکا کر بیٹھ گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک ہونٹوں کو جنبش ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کچھ پڑھنے لگے لیکن ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کلام کو نہ سن سکے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کافی دیر تک اسی حالت میں رہے ۔
کچھ عرصہ بعد وہی بوڑھی عورت اپنے جوان بیٹے کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دعائیں دے رہی تھی اور آپ کا شکر یہ ادا کر رہی تھی ،پھر کہنے لگی :”حضور! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بر کت سے میرے بیٹے کو اللہ عزوجل نے قید سے رہائی عطا فرمادی ہے ۔ اس کا واقعہ بڑا عجیب ہے، یہ خود اپنی رہائی کا واقعہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے بیان کر نا چاہتا ہے۔”یہ سن کر آپ نے فرمایا:” اے نوجوان! اپنا واقعہ بیان کرو ۔”تو وہ کہنے لگا :
جب مجھے رومیوں نے قید کرلیا تو انہوں نے مجھے چند اور قیدیوں کے ساتھ شامل کر دیا۔ وہ ہم سے بہت زیادہ مشقت والے کام کر واتے ۔ پھر ہم چند قیدیوں کو ایک بڑے شاہی عہدہ دار کے پاس بھیج دیا گیا ۔ اس کی ملکیت میں بہت سارے باغات تھے اور وہ بہت بڑی جاگیر کا مالک تھا ، وہ ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر سپاہیوں کی نگرانی میں اپنے با غا ت اور کھیتو ں میں کام کرنے کے لئے بھیجتا ۔ہم سارا دن زنجیرو ں میں جکڑے ہوئے جانوروں کی طر ح کام کرتے پھر شام کو واپس ہمیں قیدخانہ میں ڈال دیا جاتا۔ اس طرح ہم ان کی قید میں مشقتیں بر داشت کررہے تھے ۔
ایک دن ایسا ہوا کہ جب شام کو ہمیں واپس قید خانے کی طر ف لایا جارہا تھا تو یکایک میرے پاؤں میں بندھی ہوئی مضبوط بیڑیاں خود بخود ٹو ٹ کر زمین پر آپڑیں، جب سپاہیوں کو خبرہوئی تو وہ میری طر ف دوڑے او رچیختے ہوئے کہنے لگے : ”تُو نے بیڑیاں کیوں توڑ ڈالیں؟ ”میں نے کہا :”بیڑیاں خود بخود ٹوٹ گئیں ہیں ، مَیں نے تو ان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا،اگر تمہیں یقین
نہیں آتا تو دو سرے قیدیوں سے پوچھ لو۔” نوجوان کی یہ بات سن کر سپاہی بہت حیران ہوئے او رانہوں نے جاکر اپنے افسر کو یہ واقعہ بتا یا وہ بھی حیران ہوااور اس نے فوراَ ایک لوہا ر کو بلایا اور کہا: ”اس نوجوان کے لئے مضبو ط سے مضبوط بیڑیاں تیار کرو ، لوہار نے پہلی بیڑیوں سے مضبوط بیڑیاں تیار کیں ۔ مجھے دوبارہ پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ ابھی میں ان بیڑیوں میں چندقدم ہی چلا ہوں گا کہ وہ بھی خود بخود ٹوٹ کر زمین پر گر پڑیں۔
یہ منظر دیکھ کر سارے لوگ بہت حیران ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ سے ایک راہب کو بلایا اور اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ راہب نے ساری گفتگو سن کر مجھ سے پوچھا: ”اے نوجوان! کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ ”میں نے کہا :”ہاں ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عزوَجَلَّ !میری ماں زندہ ہے۔” راہب میری بات سن کر ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوااور کہنے لگا:” اس نوجوان کی والدہ نے اس کے لئے دعا کی ہے، اس کی دعاؤں نے اس نوجوان کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور اللہ عزوجل نے اس کی ماں کی دعا قبو ل فرمالی ہے، اب چاہے تم اسے کتنی ہی مضبوط زنجیروں میں قید کر و یہ پھر بھی آزاد ہو جائے گا لہٰذا بہتر ی اسی میں ہے کہ اسے آزاد کردو جس کے ساتھ ماں کی دعائیں ہوں اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔” راہب کی یہ بات سن کران رومیوں نے مجھے آزاد کردیا اور مجھے اسلامی سر حد تک چھوڑ گئے۔
جب اس نوجوان سے وہ دن اور وقت پوچھا گیاجس دن اس کی بیڑیاں ٹوٹی تھیں تو وہ وہی دن تھا جس دن بڑھیا حضرت سیدبقی بن مخلد علیہ رحمۃ اللہ الصمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تھی اور اس نے دعا کے لئے عرض کی تھی او رآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے بیٹے کے لئے دعا کی تھی۔ اسی دن اوراسی وقت نوجوان کو روم میں وہ واقعہ پیش آیا ، اس طرح ماں کی دعاؤں اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی برکت سے اس نوجوان کو رہائی حاصل ہوئی ۔
؎ نگاہِ ولی میں وہ تا ثیر دیکھی بدلتی ہزارو ں کی تقدیر دیکھی
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اسی طرح کا واقعہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کے ساتھ بھی پیش آیا، چنانچہ مروی ہے کہ حضرت سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزندِ ارجمند کو مشرکین نے قید کرلیا ۔ حضر ت سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکارِ مدینہ ،راحتِ قلب وسینہ ،باعثِ نزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر ہوئے اور اپنے بیٹے کی قید کے متعلق بتایا اور پھر یہ بھی بتایا کہ آج کل ہم بہت تنگی کے عالم میں زندگی گزار ر ہے ہیں ۔ یہ سن کر نبی ئکریم، رء ُ وف ورحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ عزوجل سے ڈرو،صبر کرو اور لَا حَوْلَ ولَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم کی
کثرت کرتے رہو ۔” یہ سن کر حضرت سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر تشریف لے آئے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے بیٹے کی وجہ سے بہت پریشان تھیں ، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ حضور نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا ہے کہ” لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم کی کثرت کرو۔”تو دو نوں نے لا حول شریف پڑھنا شرو ع کردیا،ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ جب باہر جاکر دیکھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا سامنے موجود تھا اور اس کے ساتھ کافرو ں کی چار ہزار بکریاں بھی تھیں ۔ ان کے بیٹے نے بتا یا کہ دشمنوں نے مجھے قید کرلیا اور مجھ سے بکریاں چروانے لگے ،آج میں نے دشمن کو غافل پایا تو ان کی بکریاں لے کر وہاں سے بھاگ آیا، انہیں میرے بھاگنے کی خبر تک نہ ہوئی ۔
اپنے بیٹے کو اپنے پاس دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوئے اور حضور نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی:” میرا بیٹا دشمن کی قید سے بھاگ آیا ہے اور ان کی چار ہزار بکریاں بھی ساتھ لایا ہے ،کیا یہ بکریاں ہمارے لئے حلال ہیں؟ ”توحضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: ”ہاں(یہ تمہارے لئے حلال ہیں) ۔”
اس وقت سورہ طلاق کی مندرجہ ذیل آیت مبارکہ نازل ہوئی :
وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿2﴾وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ؕ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدْرًا ﴿3﴾ (پ28،الطلاق:2،3)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گااوراسے وہاں سے روزی دے گاجہاں اس کا گمان نہ ہواور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بےشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے بےشک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھاہے۔
(تفسیرقرطبی،سورۃ الطلاق،تحت الآیۃ:”وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ الٰی۔۔ لَا یَحْتَسِبُ”،ج ۱۷،ص۱۴۳۔۱۴۴)
مذکورہ آیتِ کریمہ کے فوائد:
یہ آیتیں بڑی ہی بابر کت اور عظمت والی ہیں۔ ان کے متعلق سرکارِ دو عالم ، نورِ مجسَّم ،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا:” جو شخص ا س آیت کو پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے شبہاتِ دُنیا، غمراتِ موت اوربروزِ قیامت سختیوں سے خلاصی کی راہ نکالے گا۔” اور اس آیت کی نسبت نبی ئ کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے یہ بھی فرمایا: ”میرے علم میں ایک ایسی آیت ہے جسے لوگ محفو ظ کرلیں تو ان کی ہر ضرورت وحاجت کے لئے کافی ہے ۔تفسیر خزائن العرفان،سورۃ الطلاق، تحت الآیۃ:۲۔۳)
(یہ آیت مبارکہ نہایت مُجرّب ہے جسے کوئی پریشانی ہو، دنیا وی تکالیف کا سامنا ہو، فکر معاش دامن گیر ہو، دشمن کا خوف ہو یا
دشمن کی قید میں ہو تواس آیت کو کامل یقین کے ساتھ پڑھے اِن شاء للہ عزوجل تمام پر یشانیوں سے نجات حاصل ہو جائے گی، خوشحالی اور فراخی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ اُخروی نجات کے لئے بھی یہ آیت مبارکہ بہت مفید ہے۔چنانچہ اس کا وِرد کرتے رہنا چاہے، اللہ عزوجل ہمیں قرآن پاک کی تلاوت اور اس کے اَحکام پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ