حکایت نمبر234: مال ودولت کا بہترین استعمال
حضرتِ سیِّدُنا ابو حسین احمد بن حسین واعظ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ” ابو عبداللہ بن ابو موسیٰ ہاشمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس ایک یتیم بچے کے دس ہزار دینار امانت رکھے گئے ، انہیں تنگ دستی نے آلیا اور نوبت فاقوں تک پہنچنے لگی۔ بالآخر مجبور ہو کر امانت رکھی ہوئی رقم اپنے استعمال میں لے آئے۔ جب یتیم بچہ بڑا ہوگیا تو سلطان نے حکم دیا کہ اس کا مال اس کے سپرد کر دیا جائے۔
حضرتِ سیِّدُناابو موسیٰ ہاشمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :” جب مجھے یہ حکم ملاتو میں بہت پریشان ہوا ،زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہونے لگی۔ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ میں کہاں جاؤں اورکس طرح رقم کی ادائیگی کروں۔ اسی پریشانی کے عالم میں صبح صبح گھرسے نکلا اوراپنے خچر پر سوارہوگیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ”کَرْخ”جاؤں شاید کوئی راہ نکل آئے۔ میں بے خیالی کے عالَم میں اپنے خچر پر سوار نہ جانے کس سمت جارہا تھا۔ بالآخر میراخچر”سَلُولِیّ”کی سمت جانے والے راستہ پرچلتا ہوا حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمد علیہ رحمۃ اللہ الاحد کی مسجد کے دروازے کے پاس رک گیا۔ میں نیچے اترا اورمسجد میں داخل ہوگیا۔ فجر کی نماز میں نے حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اقتداء میں ادا کی۔ نماز کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میری طرف آئے ، مجھے خوش آمدید کہااور اپنے گھر لے گئے۔ ہم ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ایک لونڈی بہترین دسترخوان لے آئی پھر ہریسہ(یعنی گوشت اورکُوٹی ہوئی گندم ملا کر پکایا ہوا سالن)لے آئی، حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: کھائيے !میں نے بُجھے بُجھے دل سے چند لقمے کھائے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا: آپ کھانا کیوں نہیں کھارہے اوراتنے پریشان کیوں ہیں ؟”
میں نے انہیں ساراواقعہ بتادیااورکہا:” اب میں پریشا ن ہوں کہ اتنا مال کہاں سے لاؤں؟” میری روداد سن کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا:” آپ بے فکر ہوکر کھاناکھائیں، آپ کی حاجت پوری کردی جائے گی ۔” پھر انہوں نے میٹھا منگوایا ہم نے مل کر کھانا کھایا پھر ہاتھ دھوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی لونڈی سے فرمایا :”فلاں کمرے کا دروازہ کھولوجیسے ہی دروازہ کھلا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں بہت سے تھیلے اوردیناروں سے بھرے ہوئے کافی سارے ٹوکرے رکھے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے کچھ تھیلے لے آئے میرے سامنے لاکر کھولے تو وہ دیناروں سے بھرے ہوئے تھے ۔ پھر غلام کو حکم دیا
کہ ترازو لے آؤ۔ غلام ترازو لے آیا اور دس ہزاردیناروزن کر کے تھیلیوں میں بھر دئیے گئے ۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”رقم لے جائيے اور اپنا قرض ادا کیجئے ۔ ”
میں نے احسان مندانہ انداز میں کہا:” آپ کی یہ رقم مجھ پر قرض ہے ۔ میں یہ ضرور واپس کروں گا۔” پھرمیں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے چلا آیا۔ گھر پہنچ کر سبز عمدہ چادر اوڑھی، خچر پر سوار ہوااور بادشاہ کے دربار پہنچ کر بڑے پُروقار انداز میں کہا: ”میرے متعلق لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ میں یتیم کامال کھا کر بھاگ گیاہوں ۔ یہ دیکھئے! یہ سارامال حاضرِ خدمت ہے۔” یہ دیکھ کر بادشاہ نے قاضی ،گواہ اورتمام ریکارڈطلب کئے۔پھر تمام مال اس یتیم کو ادا کردیا۔ پھرمیری تعریف کرتے ہوئے شکریہ اداکیااورمجھے گھر آنے کی اجازت دے دی۔
جب میں گھر پہنچا تو ایک رئیس زادے نے مجھے بلایااور کہا:” میں اپنی زمین تجھے ٹھیکے پر دیتاہوں ،اس سے جو فصل ہوگی ہم ایک مقررہ مقدار میں آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ کیا تم راضی ہو؟”میں نے ہاں کردی اور زمین کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ایک سال پورا ہوا تو میں نے فصل اس کے حوالے کردی اسے اس سال کافی نفع ہوا،میں نے تین سال کے لئے اس کی زمین لی تھی، تین سال بعد جب میں نے حساب لگایاتو میرے حصے میں تیس ہزار دینار آئے۔ میں نے دس ہزاردینار لئے اور حضرتِ سیِّدُنا دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف چل دیا۔صبح کی نماز ان کی اقتداء میں ادا کی۔ نماز کے بعد وہ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ دسترخوان بچھایا گیا اورہمارے سامنے ”ہریسہ”رکھ دیا گیا۔ میں نے اطمینان اورخوش دلی سے کھاناکھایا۔ جب فراغت پاچکے توحضرتِ دَعْلَج بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” آپ کا کیا حال ہے اورکیا خبر ہے ؟ ‘ ‘ میں نے کہا:” اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم اورآپ کے تعاون سے میں نے تمام قرضہ اتاردیا اوراس وقت میری ملکیت میں تیس ہزار دینار ہیں۔ جو دس ہزار دینار میں نے آپ سے قرض لئے تھے وہ واپس کر نے آیا ہوں۔”
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!جس وقت میں نے رقم دی تھی تواس نیت سے نہ دی تھی کہ واپس لوں گا۔جائيے! اوریہ تمام رقم اپنے بچوں پر خرچ کیجئے ۔” میں نے حیران ہوکر پوچھا:”اے شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! آخر اتنا مال آپ کے پاس کہاں سے آیاکہ آپ دس ہزار دینار مجھے ہدیہ دے رہے ہیں؟” فرمایا: ”بات دراصل یہ ہے کہ میں نے چھوٹی عمر میں ہی قرآنِ کریم حفظ کرلیاتھا۔پھر احادیثِ کریمہ یادکیں ۔ اس طرح میں مشہور ہوگیا، پھر مجھے ایک بہت مال دار بحری تاجر ملا۔ اس نے مجھ سے پوچھا : ”کیا تم ہی دَعْلَج بن احمدہو؟”
میں نے کہا:” ہاں ۔” تو وہ کہنے لگا:” میں چاہتاہوں کہ اپنا مال تمہیں دوں تاکہ تم اس کے ذریعے تجارت کرو۔ اللہ رب العزت ہمیں جو بھی نفع دے گا وہ ہم دونوں کے درمیان برابر برابرتقسیم ہوگا۔پھر میرے مال سے مزید تجارت کرتے رہنا۔” پھر اس نے ہزار ہزار درہم کی تھیلیاں دیتے ہوئے کہا:” یہ سارا مال اپنے پاس رکھو اورتجارت شروع کردو۔اوریہ مزید کچھ رقم