خطبہ کی اذان کہاں دی جائے

خطبہ کی اذان کہاں دی جائے

(۱)’’ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ کَانَ یُؤَذَّنُ بَیْنَ یَدَيْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ ‘‘ ۔ (1)
حضرت سائب بن یزید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ جب حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی۔ اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر ر ضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانہ میں بھی رائج تھا۔ (ابوداود، جلد اول ص ۱۶۲)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ خطبہ کی اذان مسجد کے دروازہ پر پڑھنا سنت ہے ۔ حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور حضرات ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا کے زمانہ مبارکہ میں خطبہ کی اذان مسجد کے دروازہ ہی پر ہوا کرتی تھی۔ ا سی لیے فقہائے کرام مسجد کے اندر اذان دینے کو منع فرماتے ہیں۔ جیسا کہ فتاویٰ قاضی خاں جلد اول مصری ص۷۸، اور فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۵۵، اور بحرالرائق جلد اول ص:۲۶۸میں ہے :’’لَایُوذَّنُ فِی الْمَسْجِدِ ‘‘یعنی مسجد کے اندر اذان دینا منع ہے ۔ (2)اور فتح القدیر جلد اول ص:۲۱۵ میں ہے :’’ قَالُوْا لَا یُؤذَّنُ فِی المسجدِ‘‘ یعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے ۔ (3) اور طحطاوی علی مراقی الفلاح ص:۱۷ میں ہے : ’’ یَکْرہُ أَن یُؤَذَّنَ فِی المسجِدِ کَمَا فِی القُھسْتَانِی عَن النظمِ‘‘ یعنی مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے اسی طرح قہستانی میں نظم سے ہے ۔ (4) لہذا یہ جو رواج ہوگیا ہے کہ اذان مسجد کے اندر دی جاتی ہے غلط ہے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس غلط رواج کو ترک کرکے حدیث و فقہ پر عمل کریں۔
٭…٭…٭…٭

________________________________
1 – ’’سنن أبی داود‘‘، کتاب الصلاۃ، باب النداء یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۰۸۸، ج۱، ص۴۰۵.
2 – ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الفصل الثانی فی کلمات الأذان إلخ، ج۱، ص۵۵، ’’البحر الرائق‘‘، کتا ب الصلاۃ، باب الأذان، ج۱، ص۴۴۴، فتاوی قاضیخاں، باب الأذان، ج۱، ص۳۸.
3 – ’’فتح القدیر‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج۱، ص۲۵۰.
4 – ’’حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ص۱۹۷.

Exit mobile version